مجھ کو جینے کا لطف آنے لگا

عظیم

محفلین
ایک غزل بابا سے اصلاح کے بعد ۔


مجھ کو جینے کا لطف آنے لگا
جب سے میں مسجدوں میں جانے لگا

عشق سودا ہے جس کو ہو جائے
یوں سمجھ لیجے وہ ٹھکانے لگا

اب تو یہ حال ہے کہ اور کا دکھ
میری آنکھوں میں اشک لانے لگا

اے مرے ہوش مجھ کو ٹھیک سے آ
آتے آتے نہ یوں زمانے لگا

ہر نئے دن سبق نیا سیکھوں
لمحہ لمحہ مجھے پڑھانے لگا

شرم سے پانی پانی ہو کے رہا
جب کبھی سر کو میں اٹھانے لگا

شکر کی جا ہے خوفِ ربِ جلیل
میرے دل میں جگہ بنانے لگا

 
Top