طارق شاہ
محفلین
غزل
حسرت موہانی
مجھ کو خبر نہیں کہ مِرا مرتبہ ہے کیا
یہ تیرے التفات نے آخر کیا ہے کیا
ملتی کہاں گداز طبیعت کی لذتیں
رنجِ فراق یار بھی راحت فزا ہے کیا
حاظرہے جانِ زار جو چاہو مجھے ہلاک
معلوم بھی تو ہو کہ تمہاری رضا ہے کیا
ہُوں دردِ لادوائے محبت کا مبتلا
مجھ کو خبر نہیں کہ دوا کیا، دُعا ہے کیا
میری خطا پہ آپ کو لازم نہیں نظر
یہ دیکھئے مُناسبِ شانِ عطا ہے کیا
ہیں بہترین صلح پہ ظاہر کی رنجشیں
ناحق ہُوں میں ملول، وہ مجھ سے خفا ہے کیا؟
گرویدہ جس سے تو ہے، خبر بھی نہیں اُسے
پھر تیرے اضطراب کی حسرت بنا ہے کیا
حسرت موہانی