طارق شاہ
محفلین
غزلِ
فراق گورکھپوری
مجھ کو مارا ہے ہر اِک درد و دوا سے پہلے
دی سزا عشق نے، ہر جُرم و خطا سے پہلے
آتشِ عشق بھڑکتی ہے ہوا سے پہلے
ہونٹ جلتے ہیں محبّت میں دُعا سے پہلے
فِتنے برپا ہوئے ہرغنچہٴ سر بستہ سے
کھُل گیا رازِ چَمن چاکِ قبا سے پہلے
چال ہے بادہٴ ہستی کا چَھلکتا ہُوا جام
ہم کہاں تھے تِرے نقشِ کفِ پا سے پہلے
اب کمی کیا ہے تِرے بے سرو سامانوں کو
کچھ نہ تھا تیری قسم ترک وفنا سے پہلے
عشقِ بیباک کو دعوے تھے بہت خلوت میں
کھو دِیا سارا بھرم شرم وحیا سے پہلے
خود بخو چاک ہوئے پیرہنِ لالہ و گُل
چل گئی کون ہوا بادِ صبا سے پہلے
ہمسفرراہِ عدم میں نہ ہو تاروں بھری رات
ہم پہنچ جائیں گے اُس آبلہ پا سے پہلے
پردۂ شرم میں صد برق تبسّم کے نِثار
ہوش جاتے رہے نیرنگِ حیا سے پہلے
موت کے نام سے ڈرتے تھے ہم اے شوقِ حیات
تو نے تو مار ہی ڈالا تھا، قضا سے پہلے
بے تکلّف بھی تِرا حُسنِ خُود آرا تھا کبھی
اِک ادا اور بھی تھی حُسنِ ادا سے پہلے
غفلتیں ہستیٴ فانی کی بتا دیں گی تجھے
جو مِرا حال تھا احساسِ فنا سے پہلے
ہم اُنھیں پا کے فراق اور بھی کچھ کھوئے گئے
یہ تکلّف تو نہ تھے عہدِ وفا سے پہلے
فراق گورکھپوری