محترمی
اسد قریشی صاحب ۔۔
ع: پھر وہی تلخ نوائی جو مرا حصہ ہے۔
آپ کی یہ غزل مجموعی طور پر ایک اچھی کاوش ہے۔ مجھے آپ کے ادبی قد کاٹھ کا اندازہ نہیں، جو کچھ اس غزل کی وساطت سے دیکھتا ہوں عرض کئے دیتا ہوں۔ میری گزارشات کو رد کر دینا یا قبول کر لینا آپ کے اختیار میں ہے۔
مجھ کو مشکل نہیں اک پل میں کنارہ کر لوں
اور چاہوں تو محبت میں گزارا کر لوں
مطلع میں عجیب مسئلہ آن پڑا ہے۔ بات بہت واضح اور مفہوم بہت کھلا کھلا ہے، کوئی ابہام نہیں، مضمون بھی مقبول ہے۔ تاہم اظہار کی سطح متاثر ہو رہی ہے۔ ’’محبت میں گزارہ کر لوں‘‘ اسے شاید ’’عجزِ بیان‘‘ کہتے ہیں؟
الف عین صاحب بہتر بتا سکتے ہیں۔ مصرع اولیٰ میں لفظی سطح پر ’’کنارہ کر لینا‘‘ کا تقاضا ہے۔ یا پھر اِس کے ساتھ ’’مَیں‘‘ ہوتا۔ توجہ فرمائیے گا۔
پیار، الفت، ہو کہ عشق و فراق و وصال
سب بلائیں ہیں، بلاؤں کا اتارا کر لوں
پیار، الفت، عشق۔ مترادفات کا استعمال ممنوع نہیں، تاہم اس کو سیاق و سباق کے تابع ہونا چاہئے۔ شاعری میں کفایتِ لفظی کو خوبی سمجھا جاتا ہے اور یہ ہے بھی بہت کام کی چیز! کہ آپ اپنے مضمون کو پھیلا سکتے ہیں۔ ’’اتارا‘‘ بطور اسم اگرچہ اردو میں بہت مانوس نہیں تاہم یہاں بہت اچھا تاثر دیتا ہے۔ اس طرح کی کاوشیں زبان کی وسعت میں مدد گار ہوتی ہیں۔
ایک ہی فن میں ہوں برسوں سے میں یکتہ لوگو!
جب بھی چاہوں تو میں اشکوں کو ستارہ کرلوں
یہ شعر بہت توجہ چاہتا ہے۔ ایک تو ’’یکتا‘‘ کی املاء درست فرما لیجئے، اس میں ہمزہ نہیں الف ہے۔ دوسرے ’’برسوں سے یکتا ہونا‘‘ اس میں مدت کا ذکر کچھ زائد نہیں کیا؟ یکتا ہونا تو ایک مستقل صفت ہے۔ ’’اشک ستارہ کرنا‘‘ بہت اچھی بلکہ خوبصورت ترکیب ہے، یہاں لفظ ’’تو‘‘ پاسنگ لگ رہا ہے۔ الفاظ کی نشست بدل کر اِس پاسنگ کو نکال سکیں تو بہتر ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ شاید ’’لوگو‘‘ کا ہے؟
خونِ دل، زخمِ جگر، اشک فشانی، ماتم
کر چکا ہوں جو کہو تم تو دوبارہ کر لوں؟
’’دوبارہ‘‘ اور ’’دُبارہ‘‘ لفظاً بھی دونوں طرح رائج ہے اور درست ہے۔ دوسرے مصرعے کے آخر سے سوالیہ نشان ہٹا دیں تو میرا خیال ہے معانی میں وسعت آئے گی۔ اس کو استفہام تک محدود نہ کیجئے۔ خونِ دِل اور زخمِ جگر یہ دونوں کیفیات ہیں اور اشک فشانی اور ماتم یہ دونوں عمل ہیں۔ ’’کر لینا‘‘ کا تعلق عمل سے ہے کیفیات سے نہیں۔ یہاں عرض کرتا چلوں کہ چلئے ’’دل کا خون کرنا‘‘ یا ’’دل کو خون کرنا‘‘ محاورۃً عمل ٹھہرا، مگر یہ ’’خونِ دل کرنا‘‘ کا جواز فراہم نہیں کرتا۔
میری منزل، مرا رستہ، یہ مرے خواب، یہ گھر
اب تلک میرا ہے جو اس کو ہمارا کر لوں
اس شعر پر اعجاز عبید صاحب کی رائے بہت مبسوط ہے۔ اس پر کوئی اضافہ نہیں کر سکوں گا۔
ہائے وہ جسم کہ پھول اپنی قبائیں کتریں
گر اجازت ہو اسد میں بھی نظارہ کر لوں
مقطع اچھا اظہار ہے، خاص طور پر ’’اپنی قبائیں کترنا‘‘ بہت عمدہ! اس میں اگر ’’وہ جسم‘‘ کی جگہ وسیع تر معانی لائے جا سکیں کہ جسم صرف جسم نہ رہے، پھول کے حوالے سے کسی صفت کا استعارہ بن جائے!۔ ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں۔
میرا کہا جزوی یا کلی طور پر گراں گزرا ہو تو اِسے نظر انداز کر دیجئے گا۔
سطور کی ساخت میں بہت کچھ ادھر ادھر ہو گیا۔ مجھے نہیں پتہ اس کو کیسے درست کریں گے۔