عباس رضا
محفلین
مجھ کو پھر یاد آتا ہے میرے وطن
میں نے جس روز پہنا تیرا پیرہن
میری ماں نے کہا تھا مجھے چوم کر
راہِ حق ہے میرے لال چل جھوم کر
اپنی جاں اور دل سے جلا کر وفا کے دیے
میں نے جنما ہے تجھ کو وطن کے لیے
مجھ سے کہنے لگی: تُو میری جان ہے
جان حسبِ نصابِ مسلمان ہے
جب نمازِ جہادِ وطن ہو ادا
تُو ملے سب کو پہلی صفوں میں کھڑا
جب زمینِ وطن کر رہی ہو وضو
پیش کرنا میرے لال اپنا لہو
اور کہنا ”وطن! تُو ہمیشہ جیے“
میں نے جنما ہے تجھ کو وطن کے لیے
جان پہلے بھی واری گئے پیار پر
خون سجتا رہا تیرے رخسار پر
”مجھ سے پہلے بھی تھے جو نبھاتے رہے
جاں لٹاتے رہے ، سر کٹاتے رہے
میں نے سینچی ہیں رخ پہ تیرے ڈالیاں
میں نے کی ہیں وطن! تیری رکھوالیاں
ماں کو میں نے شہادت کے تحفے دیے
اس نے جنما ہے مجھ کو وطن کے لیے“
میں نے جس روز پہنا تیرا پیرہن
میری ماں نے کہا تھا مجھے چوم کر
راہِ حق ہے میرے لال چل جھوم کر
اپنی جاں اور دل سے جلا کر وفا کے دیے
میں نے جنما ہے تجھ کو وطن کے لیے
مجھ سے کہنے لگی: تُو میری جان ہے
جان حسبِ نصابِ مسلمان ہے
جب نمازِ جہادِ وطن ہو ادا
تُو ملے سب کو پہلی صفوں میں کھڑا
جب زمینِ وطن کر رہی ہو وضو
پیش کرنا میرے لال اپنا لہو
اور کہنا ”وطن! تُو ہمیشہ جیے“
میں نے جنما ہے تجھ کو وطن کے لیے
جان پہلے بھی واری گئے پیار پر
خون سجتا رہا تیرے رخسار پر
”مجھ سے پہلے بھی تھے جو نبھاتے رہے
جاں لٹاتے رہے ، سر کٹاتے رہے
میں نے سینچی ہیں رخ پہ تیرے ڈالیاں
میں نے کی ہیں وطن! تیری رکھوالیاں
ماں کو میں نے شہادت کے تحفے دیے
اس نے جنما ہے مجھ کو وطن کے لیے“
آخری تدوین: