فرخ منظور
لائبریرین
مجید امجد کی نظموں کا جائزہ از ڈاکٹر رابعہ سرفراز
بشکریہ دی نیو ایج میڈیا ایند ریسریچ سنٹر
س امر کی آغازِکار ہی میں وضاحت ضروری ہے کہ مجید امجد اپنے رجحان ساز اسلوب اور کثیر الجہات شعری شخصیت ہونے کے سبب اُردو شاعری میں منفرد اہمیت کے حامل ہیں۔ایک ایسی شخصیت جو اُردو شاعری میں اسلوبیات کے ایک خاص زاویے کے حوالے سے پہلی اور اب تک کی آخری منفرد شخصیت تھی- اسلوبیات کا مطالعہ اپنی تمام ترمعنوی‘علامتی اور استعاراتی وسعتوں کے باوجود لفظ کی اکائی سے شروع ہوتاہے اور اسی کے اظہار سے اپنا ہر قسم کا دوسرا یعنی معنوی وجود رکھتاہے-
مجیدامجدکے ہاں اسلوب میں ایک نمایاں بات ترجیحی اور متنوع افعال Diversity of Expandeing Verbs کی ہے ۔اُردو قارئین کے لیے یہ اصطلاح نئی ہوگی لیکن اس کا وجود اردو شاعری کے ابتدائی نمونوں ہی سے دستیاب ہے ۔عربی اور فارسی شاعری کی جن بنیادوں پر اُردو کا خمیر اُٹھا اُس میں افعال کو ہمیشہ سے خاص حیثیت حاصل رہی ہے ۔زبان کی ترقی اور زمانے کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ بعض حساس اور وضاحت پسند شاعروں کے لیے ضروری ہوگیاکہ وہ ایک ہی بات کو بیان کرتے ہوئے ممکنہ قریبی افعال کو بھی اظہار میں شامل کرتے رہیں۔اس قسم کا اسلوبیاتی تجزیہ نسبتاََ قواعد کے خشک اصولوں سے عبارت ہے ،لیکن اسلوبیات (خصوصاََ اسلوب کا وہ پہلو جس کا تعلق اصواتPhoneticsکے ساتھ ہے )کے حوالے سے یہ مطالعہ نہ صرف اہم ہے بلکہ صورتِ حال کی ممکن حد تک وضاحت کے لیے دلچسپ اور ضروری بھی۔
علامہ اقبال کی معروف نظم ساقی نامہ‘کے یہ شعر دیکھیے جن میں وہ پہاڑی ندی کے سفر کابیان کرتے ہیں:
ان اشعار میں درج ذیل الفاظ پر غورکیجیے۔
اُچکتی‘اٹکتی‘لچکتی‘سرکتی‘اُچھلتی‘پھسلتی‘سنبھلتی‘نکلتی-
ان اشعار میں علامہ اقبال نے ندی کے سفرمیں درپیش صورت حال کی عکاسی کرتے ہوئے پہاڑمیں سے پانی گزرنے کی حالت کوتفصیل کے ساتھ بیان کیاہے -واضح ہو کہ یہ تنوع ‘لمحہ لمحہ بدلتی ہوئی بہاوٴ کی شکلوں کی تصویرکشی علامہ اقبال کا خاص موضوع اور انداز بھی ہے-’ہمالہ‘میں بھی علامہ اقبال نے ندی کے سفر کو مختلف صورتوں میں بیان کیاہے-
اظہار میں یہ پہلو اس وقت نمایاں ہوتا ہے جب ایک فن کار کسی چیز کی حرکت کو پیش کرتے ہوئے اس سے متعلقہ ممکن حد تک مگر اظہار کی ضرورت کے مطابق صورتوں کوپیش کرتا جاتاہے۔اس کی کئی قسمیں ہیں-مجیدامجدکے ہاں یہ قسمیں اپنی مختلف شکلوں میں ظاہرہوتی ہیں۔یہ مجید امجد کے اظہار کا خاص انداز ہے -وہ کبھی دو ایک جیسے الفاظ/افعال کو ملاتے ہیں کبھی ایک جیسے دو ٹکڑوں کی تکرار سے کام لیتے ہیں کبھی ایک لفظ / کیفیت/صورت کے متبادلات لاتے ہیں جس سے صورت حال کی مختلف شکلیں سامنے آتی ہیں،یوں مجید امجد کے اظہار کے انداز میں ایک تحرک کا انداز نمایاں ہوتا ہے -اس تحرک سے لفظ کی تصویرکشی ‘ساکن تصور سے متحرک تصویر اور متحرک تصویر سے دوسری متحرک صورت میں ڈھلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔یوں ساکن لفظوں پر چلتی پھرتی صورت حال کی حیثیت کا گماں گزرتاہے-تصویرکشی کے فن کی اصطلاحات میں بات کریں تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ساکن تصویر(StillPhoto)کو متحرک فلم(Movie)میں بدل دیتے ہیں ۔اس سے جہاں قاری کو منظرنامے کی مختلف شکلوں سے آگاہی ہوتی ہے وہاں فن پارے کی تاثیرمیں بھی اضافہ ہوتا ہے- درج ذیل مثالیں دیکھیے-
طویل اور لا منتہی راستے پر بچھا رکھے ہیں دام اپنے قضا نے
اِدھر وہ مصیبت کے ساتھی ملائے ہوئے سینگوں سے سینگ ‘ شانوں سے شانے
رواں ہیں نہ جانے
کدھر؟کس ٹھکانے؟
نہ رُکنے کی تاب اور نہ چلنے کا یارا
مقدّر نیارا
عام شاعر ’مگر کھیت سوکھے پڑے ہیں‘پہ ہی اپنی نظم کی لائن ختم کرتا مگر مجید امجد کا اسلوب انھیں اس کیفیت کی تفصیلی تصویر کشی اور اس کی شدت کے اظہار پہ مجبور کرتاہے اور وہ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ :
مگر کھیت سوکھے پڑے ہیں نہ فصلیں ‘ نہ خرمن ‘ نہ دانہ
نہ شاخوں کی باہیں ‘ نہ پھولوں کے مُکھڑے ‘ نہ کلیوں کے ماتھے ‘ نہ رُت کی جوانی
گراں بار زنجیریں‘بھاری سلاسل‘کڑکتے ہوئے آتشیں تازیانے
صورتِ حال کی سنگینی کو واضح کرتے ہیں-مجیدامجدکی نظموں کے الفاظ داخلی طور پہ ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں اور ہر پہلا لفظ دوسرے لفظ کی تخلیق کا جواز فراہم کرتاہے۔تخلیقی تجربہ شاعر کی رگوں میں لہو بن کے دوڑ رہا ہے اور تمام ممکنہ صورتوں میں ظہور پذیر ہونے کا طلب گارہے -
مجید امجد کی شاعری میں الفاظ اپنی نسبتوں کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں۔نسبتوں اور تلازموں کی تلاش ان کا پسندیدہ انداز ہے ۔وہ لفظ کی ظاہری شکل و صورت کو اس مہارت سے استعمال میں لاتے ہیں کہ قاری کے داخل کی دنیا سازو آواز سے معمور ہوجاتی ہے ۔کیفیات کے مرحلہ وار اظہار نے ان کی شاعری کو ایسا رنگ اور آہنگ عطا کیا ہے جو ان کے ہم عصروں کے ہاں نظر نہیں آتا۔مجید امجد کی مختلف نظموں کے یہ حصے ملاحظہ ہوں:
یہاں افعال ا ور صفات کی کیفیات اور منظرنامے کی داخلی اور خارجی شکلیں دیکھیے۔فضاوٴں کے ساتھ دھندلا دھندلا‘رستے کے ساتھ سُونا‘گلی کے ساتھ تنہا اور شام کے ساتھ خموش کے الفاظ نے منظر کو کتناگہرا اور کیفیت کو کتنا شدید کردیاہے۔
کواڑ کے ساتھ بند ‘گلی کے ساتھ بے صدا‘فضاکے ساتھ خاموش ‘مسافر کے ساتھ ایک‘دردکامارا اور مدہوش(تین تلازمے آگئے ہیں)یہاں گہرائی میں اضافہ اور کیفیت میں اور شدت پیدا ہوگئی ہے -درج ذیل شعر میں :
آنکھیں کے ساتھ تھک گئیں‘امیدیں کے ساتھ سوگئیں اور دل کے ساتھ مر گیا کے الفاظ معنویت میں نکھار پیداکرتے ہیں-
مجید امجد کے ہاں افعال کا تنوع اتنی بلندآہنگی اور تکرار کے ساتھ آیا ہے کہ عام قاری کا سرسری مطالعہ بھی اُن کے اس اسلوبیاتی پہلوکونظراندازنہیں کرسکتاچہ جائیکہ مجیدامجد کا تجزیہ ہی اس حوالے سے کیاجائے۔اس مطالعے کا آغاز مجیدامجدکی اس معروف نظم سے کرتے ہیں جس کا عنوان ہے’توسیع ِ شہر‘
اس نظم میں درج ذیل الفاظ پر غورکیجیے:
کٹتے‘جھڑتے ‘چھٹتے ‘گھنے‘سہانے‘چھاوٴں چھڑکتے‘ بُور لدے-
شاعر آلِ آدم سے خود اپنے آپ پر ایک کاری ضرب کا مطالبہ کر رہاہے تاکہ مقتل میں اس کا لہو بھی بہتا ہُوا دکھائی دے ۔یہ فطرت سے اپنی ذات کی مطابقت کی ایسی کوشش ہے جو فطرت کے زوال کے ساتھ آدم کی آل کوبھی زوال پذیر دیکھتی ہے ۔شہروں کی توسیع کے ساتھ مشینی زندگی کے فروغ نے نہ صرف فطرت سے انسان کے رشتے منقطع کردیے ہیں بلکہ اسے خود اپنی ذات سے بھی دُور کردیاہے۔یہاں شمیم حنفی کی درج ذیل رائے اہمیت کی حامل ہے کہ
”اجتماعی فیصلوں کی اطاعت میں بھی اپنا زیاں ہے اور ان سے انکار میں بھی اذیت ۔چنانچہ بے بسی اور لاچاری کا احساس اس کے تجربے کو ایک المیاتی جہت سے ہمکنار کردیتاہے۔یہی وجہ ہے کہ نئی شاعری میں ذاتی یااجتماعی صورتِ حال کے ادراک کی بیشتر تصویریں غم آلودہیں۔“
(شمیم حنفی‘نئی شعری روایت‘قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ‘نئی دہلی‘۲۰۰۵ء‘ص۱۳۰)
درج ذیل مثال دیکھیے:
الفاظ صوتی چہروں میں ایک پورا افسانہ اور کہانی کہہ رہے ہیں جو حسیات پہ حاوی ہے ۔گھنگھروٴں کی آواز سماعت‘لنگی کی سرخ البیلی ڈوری بصارت اور جھونکوں کی خوشبو شامہ کے حوالے سے سننے ‘دیکھنے اور سونگھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔لفظوں کے رنگ اور آہنگ نے نظم کے خوابناک ماحول کی تشکیل میں اہم کردار اداکیاہے۔مختلف شکلوں سے صورتِ حال کی عکاسی۔۔داخلی طور پر مُوڈ‘ کیفیت‘احساس کا تنوع اور خارجی طور پر منظرنامے کے مختلف حصے۔۔داخل اور خارج کی ان تصویروں نے مل کر شعر کی کیفیت میں گہرائی کو نمایاں کیاہے-
مزید پڑھیں
بشکریہ دی نیو ایج میڈیا ایند ریسریچ سنٹر
س امر کی آغازِکار ہی میں وضاحت ضروری ہے کہ مجید امجد اپنے رجحان ساز اسلوب اور کثیر الجہات شعری شخصیت ہونے کے سبب اُردو شاعری میں منفرد اہمیت کے حامل ہیں۔ایک ایسی شخصیت جو اُردو شاعری میں اسلوبیات کے ایک خاص زاویے کے حوالے سے پہلی اور اب تک کی آخری منفرد شخصیت تھی- اسلوبیات کا مطالعہ اپنی تمام ترمعنوی‘علامتی اور استعاراتی وسعتوں کے باوجود لفظ کی اکائی سے شروع ہوتاہے اور اسی کے اظہار سے اپنا ہر قسم کا دوسرا یعنی معنوی وجود رکھتاہے-
مجیدامجدکے ہاں اسلوب میں ایک نمایاں بات ترجیحی اور متنوع افعال Diversity of Expandeing Verbs کی ہے ۔اُردو قارئین کے لیے یہ اصطلاح نئی ہوگی لیکن اس کا وجود اردو شاعری کے ابتدائی نمونوں ہی سے دستیاب ہے ۔عربی اور فارسی شاعری کی جن بنیادوں پر اُردو کا خمیر اُٹھا اُس میں افعال کو ہمیشہ سے خاص حیثیت حاصل رہی ہے ۔زبان کی ترقی اور زمانے کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ بعض حساس اور وضاحت پسند شاعروں کے لیے ضروری ہوگیاکہ وہ ایک ہی بات کو بیان کرتے ہوئے ممکنہ قریبی افعال کو بھی اظہار میں شامل کرتے رہیں۔اس قسم کا اسلوبیاتی تجزیہ نسبتاََ قواعد کے خشک اصولوں سے عبارت ہے ،لیکن اسلوبیات (خصوصاََ اسلوب کا وہ پہلو جس کا تعلق اصواتPhoneticsکے ساتھ ہے )کے حوالے سے یہ مطالعہ نہ صرف اہم ہے بلکہ صورتِ حال کی ممکن حد تک وضاحت کے لیے دلچسپ اور ضروری بھی۔
علامہ اقبال کی معروف نظم ساقی نامہ‘کے یہ شعر دیکھیے جن میں وہ پہاڑی ندی کے سفر کابیان کرتے ہیں:
وہ جوئے کہستاں اُچکتی ہوئی
اٹکتی‘ لچکتی ‘سرکتی ہوئی
اُچھلتی ‘ پھسلتی ‘ سنبھلتی ہوئی
بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوئی
(اقبال‘کلیات اقبال‘اقبال اکادمی پاکستان لاہور‘۱۹۹۴ء‘ص۴۵۰)
اُچکتی‘اٹکتی‘لچکتی‘سرکتی‘اُچھلتی‘پھسلتی‘سنبھلتی‘نکلتی-
ان اشعار میں علامہ اقبال نے ندی کے سفرمیں درپیش صورت حال کی عکاسی کرتے ہوئے پہاڑمیں سے پانی گزرنے کی حالت کوتفصیل کے ساتھ بیان کیاہے -واضح ہو کہ یہ تنوع ‘لمحہ لمحہ بدلتی ہوئی بہاوٴ کی شکلوں کی تصویرکشی علامہ اقبال کا خاص موضوع اور انداز بھی ہے-’ہمالہ‘میں بھی علامہ اقبال نے ندی کے سفر کو مختلف صورتوں میں بیان کیاہے-
آتی ہے ندّی فرازِ کوہ سے گاتی ہوئی
کوثر و تسنیم کی موجوں کو شرماتی ہوئی
آئینہ سا شاہدِ قدرت کو دکھلاتی ہوئی
سنگِ رہ سے گاہ بچتی گاہ ٹکراتی ہوئی
(اقبال‘کلیات اقبال‘اقبال اکادمی پاکستان لاہور‘۱۹۹۴ء‘ص۵۲)
کنواں چل رہا ہے ! مگر کھیت سوکھے پڑے ہیں نہ فصلیں ‘ نہ خرمن ‘ نہ دانہ
نہ شاخوں کی باہیں ‘ نہ پھولوں کے مُکھڑے ‘ نہ کلیوں کے ماتھے ‘ نہ رُت کی جوانی
گزرتا ہے کیاروں کے پیاسے کناروں کو یوں چیرتا…تیز ‘ خوں رنگ ‘ پانی
کہ جس طرح زخموں کی دُکھتی تپکتی تہوں میں کسی نیشتر کی روانی
ادھر دھیری دھیری
کنویں کی نفیری
ہے چھیڑے چلی جا رہی اک ترانہ
پر اسرار گانا
جسے سن کے رقصاں ہے اندھے تھکے ہارے بے جان بیلوں کا جوڑا بچاراطویل اور لا منتہی راستے پر بچھا رکھے ہیں دام اپنے قضا نے
اِدھر وہ مصیبت کے ساتھی ملائے ہوئے سینگوں سے سینگ ‘ شانوں سے شانے
رواں ہیں نہ جانے
کدھر؟کس ٹھکانے؟
نہ رُکنے کی تاب اور نہ چلنے کا یارا
مقدّر نیارا
(کلیات مجید امجد‘مرتب خواجہ محمد زکریا‘ماورا پبلشرز لاہور‘۱۹۸۹‘ص۱۱۵)
مگر کھیت سوکھے پڑے ہیں نہ فصلیں ‘ نہ خرمن ‘ نہ دانہ
نہ شاخوں کی باہیں ‘ نہ پھولوں کے مُکھڑے ‘ نہ کلیوں کے ماتھے ‘ نہ رُت کی جوانی
گراں بار زنجیریں‘بھاری سلاسل‘کڑکتے ہوئے آتشیں تازیانے
صورتِ حال کی سنگینی کو واضح کرتے ہیں-مجیدامجدکی نظموں کے الفاظ داخلی طور پہ ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں اور ہر پہلا لفظ دوسرے لفظ کی تخلیق کا جواز فراہم کرتاہے۔تخلیقی تجربہ شاعر کی رگوں میں لہو بن کے دوڑ رہا ہے اور تمام ممکنہ صورتوں میں ظہور پذیر ہونے کا طلب گارہے -
مجید امجد کی شاعری میں الفاظ اپنی نسبتوں کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں۔نسبتوں اور تلازموں کی تلاش ان کا پسندیدہ انداز ہے ۔وہ لفظ کی ظاہری شکل و صورت کو اس مہارت سے استعمال میں لاتے ہیں کہ قاری کے داخل کی دنیا سازو آواز سے معمور ہوجاتی ہے ۔کیفیات کے مرحلہ وار اظہار نے ان کی شاعری کو ایسا رنگ اور آہنگ عطا کیا ہے جو ان کے ہم عصروں کے ہاں نظر نہیں آتا۔مجید امجد کی مختلف نظموں کے یہ حصے ملاحظہ ہوں:
یہ دھندلی دُھندلی فضاوٴں میں انعکاسِ شفق
یہ سُونا رستہ ‘یہ تنہا گلی ‘ یہ شامِ خموش
(کلیات مجید امجدء‘ص۶۹)
کواڑ بند ‘ گلی بے صدا ‘ فضا خاموش
اور ایک درد کا مارا ہُوا مسافرِ مدہوش
(کلیات مجید امجد‘ص۱۰۰)
تھک گئیں آنکھیں ‘ اُمیدیں سو گئیں ‘ دل مر گیا
زندگی ! عزمِ سفر کر ‘ موت ! کب آئے گی تُو؟
(کلیات مجید امجد‘ص۱۰۷)(رخصت)
مجید امجد کے ہاں افعال کا تنوع اتنی بلندآہنگی اور تکرار کے ساتھ آیا ہے کہ عام قاری کا سرسری مطالعہ بھی اُن کے اس اسلوبیاتی پہلوکونظراندازنہیں کرسکتاچہ جائیکہ مجیدامجد کا تجزیہ ہی اس حوالے سے کیاجائے۔اس مطالعے کا آغاز مجیدامجدکی اس معروف نظم سے کرتے ہیں جس کا عنوان ہے’توسیع ِ شہر‘
بیس برس سے کھڑے تھے جو اس گاتی نہر کے دوار
جھومتے کھیتوں کی سرحد پر‘ بانکے پہرے دار
گھنے‘سہانے‘ چھاوٴں چھڑکتے‘ بُور لدے چھتنار
بیس ہزار میں بِک گئے سارے ہرے بھرے اشجار
جن کی سانس کا ہر جھونکا تھا ایک عجیب طلسم
قاتل تیشے چیر گئے اُن ساونتوں کے جسم
گری دھڑام سے گھائی پیڑوں کی نیلی دیوار
کٹتے ہیکل‘ جھڑتے پنجر‘ چھٹتے برگ و بار
سہمی دھوپ کے زرد کفن میں لاشوں کے انبار
آج کھڑا مَیں سوچتا ہوں اس گاتی نہر کے دوار
اس مقتل میں صرف اک میری سوچ‘ لہکتی ڈال
مجھ پر بھی اب کاری ضرب اک ‘ اے آدم کی آل
(کلیات مجید امجدمرتب خواجہ محمد زکریا‘ماورا پبلشرز لاہور‘۱۹۸۹ء‘ص۳۴۶)
کٹتے‘جھڑتے ‘چھٹتے ‘گھنے‘سہانے‘چھاوٴں چھڑکتے‘ بُور لدے-
شاعر آلِ آدم سے خود اپنے آپ پر ایک کاری ضرب کا مطالبہ کر رہاہے تاکہ مقتل میں اس کا لہو بھی بہتا ہُوا دکھائی دے ۔یہ فطرت سے اپنی ذات کی مطابقت کی ایسی کوشش ہے جو فطرت کے زوال کے ساتھ آدم کی آل کوبھی زوال پذیر دیکھتی ہے ۔شہروں کی توسیع کے ساتھ مشینی زندگی کے فروغ نے نہ صرف فطرت سے انسان کے رشتے منقطع کردیے ہیں بلکہ اسے خود اپنی ذات سے بھی دُور کردیاہے۔یہاں شمیم حنفی کی درج ذیل رائے اہمیت کی حامل ہے کہ
”اجتماعی فیصلوں کی اطاعت میں بھی اپنا زیاں ہے اور ان سے انکار میں بھی اذیت ۔چنانچہ بے بسی اور لاچاری کا احساس اس کے تجربے کو ایک المیاتی جہت سے ہمکنار کردیتاہے۔یہی وجہ ہے کہ نئی شاعری میں ذاتی یااجتماعی صورتِ حال کے ادراک کی بیشتر تصویریں غم آلودہیں۔“
(شمیم حنفی‘نئی شعری روایت‘قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ‘نئی دہلی‘۲۰۰۵ء‘ص۱۳۰)
درج ذیل مثال دیکھیے:
چاندی کی پازیب کے بجتے گھنگھروٴں سے کھیلے
ریشم کی رنگیں لُنگی کی سُرخ البیلی ڈوری
نازک نازک پاوٴں برقعے کو ٹھکراتے جائیں
چھم چھم بجتی جائے پائل ‘ناچتی جائے ڈوری!
ہائے سنہری تِلّے کی گلکاری والی چپلی
جس سے جھانکے مست سہاگن مہندی چوری چوری
جانے کتنی سندر ہوگی روپ نگر کی رانی
اُف چپلی میں سُکڑی سُکڑی انگلیاں گوری گوری
جھونکوں کی خوشبو‘ درّوں میں نُور لُٹاتی جائے
مجھ بھاگوں کے مارے کی قسمت کوری کوری!
(کلیات مجید امجد‘ص۱۲۸)(کون؟)
مزید پڑھیں