مجید امجد

شعیب اصغر

محفلین
جب اک چراغ راہگزار کی کرن پڑے
ہونٹوں کی لو لطیف حجابوں سے چھن پڑے

شاخِ ابد سے جھڑتے زمانوں کا روپ ہیں
یہ لوگ جن کے رخ پہ گمانِ چمن پڑے

تنہا گلی، ترے مرے قدموں کی چاپ، رات
ہر سو وہ خامشی کہ نہ تابِ سخن پڑے

یہ کس دیار کی ٹھنڈی ہوا چلی
ہر موجہء خیال پہ صد ہا شکن پڑے

جب دل کی سل پہ بج اٹھے نیندوں کا آبشار
نادیدہ پائلوں کی جھنک جھن جھنن پڑے

یہ چاندنی یہ بھولی ہوئی چاہتوں کا دیس
گزروں تو رشحہء عطرِ سمن پڑے

یہ کون ہے لبوں میں رسیلی رتیں گھلیں
پلکوں کی اوٹ نیند میں گلگوں گگن پڑے

اک پل بھی کوئے دل میں نہ ٹھہرا وہ رہ نورد
اب جس کے نقشِ کفِ پا ہیں چمن در چمن پڑے

اک جست اس طرف بھی غزال زمانہ رقص
رہ تیری دیکھتے ہیں خطا و ختن پڑے

جب انجمن تموجِ صد گفتگو میں ہو
میری طرف بھی اک نگہ کم سخن پڑے

صحرائے زندگی میں جدھر بھی قدم اٹھیں
رستے میں ایک آرزوؤں کا چمن پڑے

اس جلتی دھوپ میں یہ گھنے سایہ دار پیڑ
میں اپنی زندگی انہیں دے دوں جو بن پڑے

اے شاطرِ ازل ترے ہاتھوں کو چوم لوں
قرعے میں میرے نام جو دیوانہ پن پڑے

اے صبح دیر خیز انھیں آواز دے جو ہیں
اک شام زود خواب کے سکھ میں مگن پڑے

اک تم کہ مرگ دل کے مسائل میں جی گئے
اک ہم کہ ہیں بہ کشمکش جان و تن پڑے
ٴ
امجد طریق مے میں ہے یہ احتیاط شرط
اک داغ بھی کہیں نہ سرِ پیرہن پڑے

مجید امجد
 
Top