عاطف ملک
محفلین
قران مجید کا صوتی نظام اور ردھم
قرآن کریم ایک ایسی نثر پر مشتمل ہے جس میں شعر کے قواعد و ضوابط ملحوظ نہ ہونے کے باوجود ایک ایسا لذیذ اور شیریں آہنگ پایا جاتا ہے، جو شعر سے کہیں زیادہ حلاوت اور لطافت کا حامل ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ انسان کا جمالیاتی ذوق نظم اور شعر میں ایک ایسی لذت اور حلاوت محسوس کرتا ہے جو نثر میں محسوس نہیں ہوتی۔ اگر آپ اس لذت اور حلاوت کے سبب پر غور فرمائیں گے تو معلوم ہوگا کہ اس کا راز درحقیقت لفظوں کی اس ترتیب میں مضمر ہے جو ایک خاص صوتی آہنگ پیدا کرتی ہے، عربی ، فارسی اور اُردو کی قدیم شاعری میں اس آہنگ کی لذت شعر کے خاص اوزان کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ جب ایک ہی صوتی وزن کے الفاظ بار بار کانوں میں پڑتے ہیں تو اس سے ذوقِ سلیم کو ایک خاص لذت حاصل ہوتی ہے، اور پھر جب وزن کے ساتھ قافیہ بھی مل جاتا ہے تو اس کی لذت دوچند ہوجاتی ہے، اور جب اس کے ساتھ ردیف کی یکسانیت بھی شامل ہوجاتی ہے تو لذت میں اور اضافہ ہوجاتا ہے، اور اگر مصرعوں کےبیچ بیچ میں عروضی اوزان کے ساتھ صرفی اوزان اور قوافی کی یکسانیت بھی شامل ہوجائے (جیسا کہ مرصّع اشعار میں ہوتا ہے) تو یہ لذت ا ور بڑھ جاتی ہے۔
لیکن اوزان اور قوافی کے اصول ہر خطے اور ہر زبان میں یکساں نہیں ہوتے۔ہر زبان کے لوگ اپنے اپنے ذوق اور مزاج کے لحاظ سے اس کےلیے مختلف قواعد مقرر کرتے ہیں، مثلاً اہلِ عرب نے اپنی شاعری کو وزن اور قافیہ کے سانچے الگ ہیں فارسی شاعری میں اوزان کا دائرہ کچھ اور وسیع کیا گیا، قدیم ہندی شاعری کو دیکھئے تو اس میں معروف عروضی اوزان کے بجائے صرف حروف کی تعداد کا لحاظ ہوتا ہے۔ ہم نے اہل دیہات کو دیکھا ہے جو ان دونوں اصطلاحوں سے بیگانہ ہیں، انہوں نے اپنے سلیقہ اور ذوق کے موافق ایک خاص ترکیب اور خاص تال ایجاد کرکے چند اوزان کلیات کے انضباط اور جزئیات کے انحصار کئے بغیر مرتب کرلئے ہیں جن سے وہ اپنی محفلوں کو گرماتے اور لذت پاتے ہیں۔ اس معاملے میں انگریزی شاعری کا مزاج شاید سبہی سے زیادہ آزاد واقع ہوا ہے، کہ اُس میں عروضی اوزان تو کجا مصرعوں کے طول و عرض میں بھی بسا اوقات زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔ اکثر قافیے کی بھی کوئی خاص رعایت نہیں ہوتی، بلکہ صرف تلفّظ کے کھٹکوں (Syllables) سے ایک خاص آہنگ (rhythm) پیدا کیا جاتا ہے، اور وہی آہنگ اہلِ زبان کے لیے ایک خاص لذّت و کیف کا سبب بن جاتا ہے۔ اس طرغ یونانیوں نے کچھ اوزان مقرر کئے ہیں جن کو وہ مقامات کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور ان مقامات سے آوازیں اور شعبے نکال کر انہوں نے ایک نہایت ہی مبسوط اور مفصل فن اپنے لئے منضبط کیا ہے۔ غرض کہ ہر ایک قوم کا اپنی نظم کے متعلق ایک خاص قانون ہے۔قرآن کریم ایک ایسی نثر پر مشتمل ہے جس میں شعر کے قواعد و ضوابط ملحوظ نہ ہونے کے باوجود ایک ایسا لذیذ اور شیریں آہنگ پایا جاتا ہے، جو شعر سے کہیں زیادہ حلاوت اور لطافت کا حامل ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ انسان کا جمالیاتی ذوق نظم اور شعر میں ایک ایسی لذت اور حلاوت محسوس کرتا ہے جو نثر میں محسوس نہیں ہوتی۔ اگر آپ اس لذت اور حلاوت کے سبب پر غور فرمائیں گے تو معلوم ہوگا کہ اس کا راز درحقیقت لفظوں کی اس ترتیب میں مضمر ہے جو ایک خاص صوتی آہنگ پیدا کرتی ہے، عربی ، فارسی اور اُردو کی قدیم شاعری میں اس آہنگ کی لذت شعر کے خاص اوزان کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ جب ایک ہی صوتی وزن کے الفاظ بار بار کانوں میں پڑتے ہیں تو اس سے ذوقِ سلیم کو ایک خاص لذت حاصل ہوتی ہے، اور پھر جب وزن کے ساتھ قافیہ بھی مل جاتا ہے تو اس کی لذت دوچند ہوجاتی ہے، اور جب اس کے ساتھ ردیف کی یکسانیت بھی شامل ہوجاتی ہے تو لذت میں اور اضافہ ہوجاتا ہے، اور اگر مصرعوں کےبیچ بیچ میں عروضی اوزان کے ساتھ صرفی اوزان اور قوافی کی یکسانیت بھی شامل ہوجائے (جیسا کہ مرصّع اشعار میں ہوتا ہے) تو یہ لذت ا ور بڑھ جاتی ہے۔
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہے کہ شعر کی لذت و حلاوت میں اوزان وقوافی کے لگے بندھے قواعد کوئی عالمگیر حیثیت نہیں رکھتے، یہی وجہ ہے کہ یہ قواعد مختلف زبانوں اور خطّوں میں بدلتے رہتے ہیں۔ لیکن ایک چیز ہے جو اِن سب زبانوں اور تمام قوموں میں قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتی ہے، اور وہ ہے ایک “متوازن صوتی آہنگ(ردھم)” یعنی الفاظ کو اس طرح ترتیب دینا کہ اُن کے تلفظ سے اور انھیں سُن کر انسان کا جمالیاتی ذوق حظ محسوس کرے، لیکن انسان چونکہ اس قدرِ مشترک کو اوزان و قوافی کے معروف سانچوں سے الگ کرنے پر قادر نہیں ، اس لیے جب وہ شاعری کا لُطف پیدا کرنا چاہتا ہے تو اسے لازماً اپنے ماحول کے بنائے ہوئے قواعد و ضوابط کی پابندی کرنی پڑتی ہے، یہ صرف قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ اس نے دنیا کے مختلف خطّوںمیں مقرر کئے ہوئے شعری قواعد میں سے کسی قاعدے کی پابندی نہیں کی، بلکہ صرف “متوازن صوتی آہنگ” کی اس قدرِ مشترک کو اختیار کرلیا ہے جو اِن سارے قواعد کا اصل مقصود ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نثر ہونے کے باوجود شعر سے زیادہ لطافت اور حلاوت کا حامل ہے۔ اور اہلِ عرب ہی نہیں بلکہ دنیا کی ہر زبان کے لوگ اُسے سُن کر غیر معمولی لذت اور تاثیر محسوس کرتے ہیں۔
یہیں سے یہ بات محسوس ہوتی ہے کہ بعض کُفّارِ عرب نے قرآن ِ کریم کو کس بناء پر شعر قرار دیا تھا؟ ظاہر ہے کہ شعر کی معروف تعریف کسی بھی طرح قرآن کریم پر صادق نہیں آتی ، اور کفارِ عرب اپنی ہزار گمراہیوں کے باوجود اتنی حِس ضرور رکھتے تھے کہ نثر اور نظم میں تمیز کرسکیں، وہ اس بات سے بے خبر نہیں تھے کہ شعر کے لیے وزن اور قافیہ کی پابندی ضروری ہے،جو قرآنِ کریم میں مفقود ہے اس کے باوجود انھوں نے قرآن کریم کو شعر اس بناء پر قرار دیا کہ اس کے اسلوب اور آہنگ میں انھوں نے شعر سے زیادہ حلاوت اور تاثیر محسوس کی تھی اور وہ لوگ سمجھ رہے تھے کہ وزن اور قافیہ کی پابندی کے بغیر اس کلام میں شعری ذوق اور وجدان کے لیے جمالیاتی لذت بدرجہ اتم موجود ہے جو اوزان و قوافی کی جکڑ بندیوں سے بھی حاصل نہیں ہوتی۔
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا وہ سراپا اعجاز کلام ہے جو شعر نہ ہونے کے باوجود اپنا ایک خاص صوتی وجمالیاتی نظام رکھتا ہے، جس کی تاثیر کے سامنے اچھے سے اچھا شعر بھی ہیچ ہے، جس کو جتنی بار دوہرایا جائے، اس کی چاشنی میں کوئی کمی محسوس نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی کی کتاب ”محاضرات قرآنی “کے ایک اقتباس کا حوالہ دیا۔ غازی صاحب لکھتے ہیں:
” آپ نے ڈاکٹر حمیداللہ صاحب کا نام سنا ہوگا، انہوں نے خود براہ راست مجھ سے یہ واقعہ بیان کیا تھا کہ غالباً 1958-1957ء میں ایک شخص ان کے پاس آیا۔ ان کی زندگی کا یہ ایک عام معمول تھا کہ ہر روز دو چار لوگ ان کے پاس آتے اور اسلام قبول کرتے تھے۔ وہ بھی ایسا ہی ایک دن تھا کہ ایک صاحب آئے اور کہا کہ میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں۔
ڈاکٹر صاحب نے حسب عادت ان کو کلمہ پڑھوایا اور اسلام کا مختصر تعارف ان کے سامنے پیش کردیا۔ اپنی بعض کتابیں انہیں دے دیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ان کا معمول تھا کہ جب بھی کوئی شخص ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کرتا تھا تو وہ اس سے یہ ضرور پوچھا کرتے تھے کہ اسے اسلام کی کس چیز نے متاثر کیا ہے؟
1948ء سے 1996ء تک یہ معمول رہا کہ ڈاکٹر صاحب کے دست مبارک پر اوسطاً دو افراد روزانہ اسلام قبول کیا کرتے تھے۔عموماً لوگ اسلام کے بارے میں اپنے جو تاثرات بیان کیا کرتے تھے ،وہ ملتے جلتے ہوتے تھے۔ ان میں نسبتاً زیادہ اہم اور نئی باتوں کو ڈاکٹر صاحب اپنے پاس قلم بند کرلیا کرتے تھے۔ اس شخص نے جو بات بتائی، وہ ڈاکٹر صاحب کے بقول بڑی عجیب وغریب اور منفرد نوعیت کی چیز تھی اور میرے لیے بھی بے حد حیرت انگیز تھی۔ اس نے جو کچھ کہا ،اس کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کا ارشاد تھا کہ میں اسے بالکل نہیں سمجھا اور میں اس کے بارے میں کوئی فنی رائے نہیں دے سکتا۔
اس شخص نے بتایا: میرا نام ژاک ژیلبیر ہے۔ میں فرانسیسی بولنے والی دنیا کا سب سے بڑا موسیقار ہوں۔ میرے بنائے اور گائے ہوئے گانے فرانسیسی زبان بولنے والی دنیا میں بہت مقبول ہیں۔آج سے چند روز قبل مجھے ایک عرب سفیر کے ہاں کھانے کی دعوت میں جانے کا موقع ملا۔ جب میں وہاں پہنچا تو وہاں سب لوگ جمع ہوچکے تھے اور نہایت خاموشی سے ایک خاص انداز کی موسیقی سن رہے تھے۔
جب میں نے وہ موسیقی سنی تو مجھے ایسا لگا کہ جیسے یہ موسیقی کی دنیا کی کوئی بہت ہی اونچی چیز ہے، جو یہ لوگ سن رہے ہیں۔ میں نے خود آوازوں کی جو دھنیں اور ان کا جو نشیب وفراز ایجاد کیا ہے ،یہ موسیقی اس سے بھی بہت آگے ہے، بلکہ موسیقی کی اس سطح تک پہنچنے کے لیے ابھی دنیا کو بہت وقت درکار ہے۔ میں حیران تھا کہ آخر یہ کس شخص کی ایجاد کردہ موسیقی ہوسکتی ہے اور اس کی دھنیں آخر کس نے ترتیب دی ہیں۔جب میں نے یہ معلوم کرنا چاہا کہ یہ دھنیں کس نے بنائی ہیں تو لوگوں نے مجھے اشارہ سے خاموش کردیا لیکن تھوڑی دیر بعد پھر مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے پھر یہی بات پوچھی، لیکن وہاں موجود حاضرین نے مجھے خاموش کردیا۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ اس گفتگو کے دوران میں وہ فن موسیقی کی کچھ اصطلاحات بھی استعمال کررہا تھا، جن سے میں واقف نہیں، کیوں فن موسیقی میرا میدان نہیں۔
قصہ مختصر جب وہ موسیقی ختم ہوگئی اور وہ آواز بند ہوگئی تو پھر اس نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ سب کیا تھا ۔لوگوں نے بتایا کہ یہ موسیقی نہیں تھی، بلکہ قرآن مجید کی تلاوت ہے اور فلاں قاری کی تلاوت ہے۔ موسیقار نے کہا کہ یقینا یہ کسی قاری کی تلاوت ہوگی اور یہ قرآن ہوگا، مگر اس کی یہ موسیقی کس نے ترتیب دی ہے اور یہ دھنیں کس کی بنائی ہوئی ہیں؟ وہاں موجود مسلمان حاضرین نے بیک زبان وضاحت کی کہ نہ یہ دھنیں کسی کی بنائی ہوئی ہیں اور نہ ہی یہ قاری صاحب موسیقی کی ابجد سے واقف ہیں۔اس موسیقار نے جواب میں کہا کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ یہ دھنیں کسی کی بنائی ہوئی نہ ہوں لیکن اسے یقین دلایا گیا کہ قرآن مجید کا کسی دھن سے یا فن موسیقی سے کبھی کوئی تعلق ہی نہیں رہا۔ یہ فن تجوید ہے اور ایک بالکل الگ چیز ہے۔ اس نے پھر یہ پوچھا کہ اچھا مجھے یہ بتاؤ کہ تجوید اور قراء ت کا یہ فن کب ایجاد ہوا؟ اس پر لوگوں نے بتایا کہ یہ فن تو چودہ سو سال سے چلا آرہا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب لوگوں کو قرآن مجید عطا فرمایا تھا تو فن تجوید کے اصولوں کے ساتھ ہی عطا فرمایا تھا۔ اس پر اس موسیقار نے کہا کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لوگوں کو قرآن مجید اسی طرح سکھایا ہے جیسا کہ میں نے ابھی سنا ہے تو پھر بلاشبہ یہ اللہ کی کتاب ہے۔ اس لیے کہ فن موسیقی کے جو قواعد اور ضوابط اس طرز قراء ت میں نظر آتے ہیں ،وہ اتنے اعلیٰ وارفع ہیں کہ دنیا ابھی وہاں تک نہیں پہنچی۔
ڈاکٹر حمیداللہ صاحب فرماتے تھے کہ میں اس کی یہ بات سمجھنے سے قاصر تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ اس شخص نے کہا کہ بعد میں ،میں نے اور بھی قراء کی تلاوت قرآن کو سنا، مسجد میں جاکر سنا اور مختلف لوگوں سے پڑھواکر سنا اور مجھے یقین ہوگیا کہ یہ اللہ کی کتاب ہے اور اگر یہ اللہ کی کتاب ہے تو اس کے لانے والے یقینا اللہ کے رسول تھے، اس لیے آپ مجھے مسلمان کرلیں۔
ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ میں نے اسے مسلمان کرلیا لیکن میں نہیں جانتا کہ جو کچھ وہ کہہ رہا تھا وہ کس حد تک درست تھا، اس لیے کہ میں اس فن کا آدمی نہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ میں نے ایک الجزائری مسلمان کو جو پیرس میں زیر تعلیم تھا، اس نئے موسیقار مسلمان کی دینی تعلیم کے لیے مقرر کردیا۔ تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد وہ دونوں میرے پاس آئے اور کچھ پریشان سے معلوم ہوتے تھے۔الجزائری معلم نے مجھے بتایا کہ وہ نو مسلم قرآن مجید کے بارے میں کچھ ایسے شکوک کا اظہار کررہا ہے جن کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ جس بنیاد پر یہ شخص ایمان لایا تھا ،وہ بھی میری سمجھ میں نہیں آئی تھی اب اس کے شکوک کا میں کیا جواب دوں گا اور کیسے دوں گا۔لیکن اللہ کا نام لے کر پوچھا کہ بتاؤ تمہیں کیا شک ہے؟ اس نومسلم نے کہا کہ آپ نے مجھے یہ بتایا تھا اور کتابوں میں بھی میں نے پڑھا ہے کہ قرآن مجید بعینہ اسی شکل میں آج موجود ہے جس شکل میں اس کے لانے والے پیغمبر علیہ الصلاة والسلام نے اسے صحابہ کرام کے سپرد کیا تھا۔
ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ واقعی ایسا ہی ہے۔ اب اس نے کہا کہ ان صاحب نے مجھے اب تک جتنا قرآن مجید پڑھایا ہے ،اس میں ایک جگہ کے بارے میں مجھے لگتا ہے کہ اس میں کوئی نہ کوئی چیز ضرور حذف ہوگئی ہے۔اس نے بتایا کہ انہوں نے مجھے سورہٴ نصر پڑھائی ہے اور اس میں افواجاً اور فسبح کے درمیان خلا ہے۔ جس طرح انہوں نے مجھے پڑھایا ہے ،وہاں افواجاً پر وقف کیا گیا ہے۔وقف کرنے سے وہاں سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے جو نہیں ٹوٹنا چاہیے جبکہ میرا فن کہتا ہے کہ یہاں خلا نہیں ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے تھے کہ یہ سن کر میرے پیروں تلے زمیں نکل گئی، اور کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ اس شبہ کا جواب کیا دیں اور کس طرح مطمئن کریں۔ کہتے ہیں کہ میں نے فوراً دنیائے اسلام پر نگاہ دوڑائی تو کوئی ایک فرد بھی ایسا نظر نہیں آیا جو فن موسیقی سے بھی واقفیت رکھتا ہو اور تجوید بھی جانتا ہو۔
ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ چند سیکنڈ کی شش وپنج کے بعد بالکل اچانک اور یکایک میرے ذہن میں ایک پرانی بات اللہ تعالیٰ نے ڈالی کہ اپنے بچپن میں جب مکتب میں قرآن مجید پڑھا کرتا تھا تو میرے معلم نے مجھے بتایا تھا کہ افواجاً پر وقف نہیں کرنا چاہیے بلکہ افواجاً کو بعد کے لفظ سے ملا کر پڑھا جائے۔ ایک مرتبہ میں نے افواجاً پر وقف کیا تھا تو اس پر انہوں نے مجھے سزا دی تھی اور سختی سے تاکید کی تھی کہ افواجاً کو آگے ملا کر پڑھا کریں۔میں نے سوچا کہ شاید اس بات سے اس کا شبہ دور ہوجائے اور اس کو اطمینان ہوجائے۔ میں نے اسے بتایا کہ آپ کے جو پڑھانے والے ہیں، وہ تجوید کے اتنے ماہر نہیں ہیں۔ دراصل یہاں اس لفظ کو غنہ کے ساتھ آگے سے ملا کر پڑھا جائے گا۔ افواجاً فسبح۔ ڈاکٹر صاحب کا اتنا کہنا تھا کہ وہ خوشی سے اچھل کر کھڑا ہوگیا اور مجھے گود میں لے کر کمرے میں ناچنے لگا اور کہنے لگا کہ واقعی ایسے ہی ہونا چاہیے۔
یہ سن کر اس کو میں نے ایک دوسرے قاری کے سپرد کردیا جس نے اس شخص کو پورے قرآن پاک کی تعلیم دی۔ وہ وقتاً فوقتا ًمجھ سے ملتا تھا اور بہت سردھنتا تھا کہ واقعی یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے۔ وہ بہت اچھا مسلمان ثابت ہوا اور ایک کامیاب اسلامی زندگی گزارنے کے بعد 1970ء کے لگ بھگ اس کا انتقال ہوگیا۔
اس واقعے سے مجھے خیال ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی جو صوتیات ہے، یہ علم وفن کی ایک ایسی دنیا ہے جس میں کوئی محقق آج تک نہیں اترا ہے اور نہ ہی قرآن مجید کے اس پہلو پر اب تک کسی نے اس انداز سے غور وخوض کیا ہے
(محاضرات قرآنی ، ڈاکٹر محمود احمد)
(بشکریہ: فرقان احمد )
آخری تدوین: