مژگاں اٹھا، اشارۂ پیکاں میں بات کر
اے جاں طلب، محاورۂ جاں میں بات کر
یا برگ ریزِ ہوٗ میں نہ ہو ہم سے ہم کلام
یا لہجۂ ہوائے بہاراں میں بات کر
کیا یوں ہی محوِ جامہ دری میں ہمارے ہاتھ
کچھ دیکھ کر تو اپنے گریباں میں بات کر
ممکن نہیں مکالمۂ درد شہر میں
اچھا یہ بات ہے!، تو بیاباں میں بات کر
کیوں رشک ہے کہ بول رہے ہیں ہمارے زخم
تو بھی زبانِ سادہ و آساں میں بات کر
پیشِ حبیب طولِ سخن اور بات ہے
اک روز جا کے بزمِ رقیباں میں بات کر
جوہر ہماری کاک میں برق و شرر کا ہے
تو لعل چاہتا ہے بدخشاں میں بات کر
****