نعمان رفیق مرزا
محفلین
محترم قارئین، سلام۔ مندرجہ ذیل تحریر میں نے اپنے کچھ دوستوں کی فرمائش پہ، ان کے فیس بک کے گروپ کے لئے لکھی۔ تحاریر کا موضوع "محبت، امن اور آرٹ" کے دائرہ کار میں آنا تھا۔ تحریر کی وسعت کا علم نہیں تھا، اس لئے بہت سی باتیں مختصراً بیان کرنا پڑیں۔تحریر کا یہ ڈرافٹ ورژن ہے، اس میں کافی اغلاط بھی ہوں گی۔ آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں تا کہ آپ کی تنقید سے بہتری کے زیادہ مواقع سے مستفید ہو سکوں۔ شکریہ۔
مھبت کسی ایسی ذات یا چیز کے تقرب کی آرزو کا نام ہے جس کے سامنے انسان اپنی انا کو سرنگوں کر چکا ہو۔ یہ جذبہ انسان کی گھٹی میں رکھ دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ، ہر چیز سے انسیت اور محبت کی بنیاد پر رشتہ قائم کرتا ہے۔ وہ نفع اور نقصان سے بے نیاز ہو کر ہر شے کو چاہتا ہے۔ تو یہ بات طے پائی کہ محبت ہر ہی انسان میں ہوتی ہے، اور وہ کسی نہ کسی شے سے کرتا بھی ضرور ہے۔ بات تو (خود) شناسائی کی ہے۔ کیا وہ اس بات کو جان بھی پاتا ہے؟ ہر محبت کا انت ایک سا نہیں ہوتا۔ کسی مادی شے کی محبت یا خود ہی سے محبت، انسان کی ذات کو دوام نہیں بخشتی بلکہ اس میں حرص اور بے سکونی کا باعث بنتی ہے۔ اس کے برعکس انسان سے محبت وہ واحد محبت ہے، جو اسے مادیت سے بے نیاز کرتی ہے اور خالقِ حقیقی کی راہ سُجاتی ہے۔ اسی لیئے سب محبتوں، انسیتوں میں سب سے افضل انسان سے محبت کو ٹھہرایا گیا ہے۔ یہ وہ رشتہ ہے، جو انسان کو خالق سے ملاتا ہے۔ اللہ اور اس کے نبی (صلی اللہ علیہ و سلم) کی حقیقی سنت ہے۔
محبت کا پہلا، سب سے اہم جزو اپنی ذات کو فنا کرنے کا ہے۔ خود کی انا کو غلام کرنا اور اسے کسی کا تابع کر دینا ہی محبت کی اصل ہے۔ عشقِ مجازی میں انسان کسی ایک شے کے سامنے خود کی انا کو سرنگوں کرتا ہے، جبکہ عشقِ حقیقی میں اس کی انا کُل کائنات کو سربسجود ہوتی ہے۔ محبت کا سفر بہت لمبا اور مرتبے والا سفر ہے۔ بہر صورت ذات ذرہء بےنشاں ہوتی ہی ہے۔ فضل ہو جائے، تو عشقِ مجازی، عشقِ حقیقی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اپنی بے مائیگی اور کائنات کی ہر شہ کی کبریائی کا یقین نصیب ہوتا ہے۔ فقر کا ہدیہ ملتا ہے۔ عرفان نصیب ہوتا ہے۔ وہ سکون ملتا ہے، جسے زوال نہیں۔ مادیت سے بے نیازی نصیب ہوتی ہے۔ ہر ذرہ میں ربوبیت دِکھنے لگتی ہے۔ بندہ حسد سے، حرص سے اور فکرِ دنیا جیسے جذبات سے ماورا ہو جاتا ہے۔ چشمِ بینا نصیب ہو جاتی ہے جو اچھے برے، کھرے کھوٹے اور سیاہ سفید کا فرق مٹا ڈالتی ہے، ہر چیز میں ربوبیت دِکھنے لگتی ہے۔
ہاں! یہ بات بھی ذہن نشین ہونی چاہیے کہ عشقِ مجازی ہر کسی کا مقدر، لیکن عشقِ حقیقی صرف اسی کے لئے جس پہ خدا کا اور خدا والوں کا فضل ہو؛ اور جو اس فضل کا شکر ادا کرنا جانتا ہو۔ شکر، اپنے پہ ہوئے فضل اور انعام کو دوسروں تک پہنچانے کا نام ہے۔ یہ الحمدللہ، جزاک اللہ اور شکریہ جیسے الفاظ کی معراج ہے۔ تنگ دل، تنگ نظر اور کم حوصلہ کے لئے یہ سوغات نہیں ہے۔ رتبے والوں کا تاجِ خاکستری ہے یہ۔
تو کہنے کا مقصد یہ ہوا کہ سراپا محبت ہر کوئی ہی ہے، ہر کسی پہ ہی رب کا انعام ہے اور یہ انعام بندے پر ہر وقت، ہر جگہ، ہر حالت میں رہتا ہے۔ بات کی اصل تو اس انعام کو جان لینا اور اسے دوسروں تک پہنچانا ہے۔ فنا ہو کر، بقا پا لینے کا واحد ذریعہ یہی تو ہے۔ اللہ کے حبیب (صلی اللہ علیہ و سلم) نے بھی، اللہ کے فضل کو اوروں تک پہنچایا، یہی اس ذات (صلی اللہ علیہ و سلم) کی معراج تھی اور یہی بات خالقِ بر حق کو عزیز بھی ہے۔ تو دعا ہے کہ ربِ کائنات ہمیں ہم پر ہوئے انعامات کو جاننے، اور انھیں اوروں کے ساتھ شئیر کرنے کی تو فیق عطا فرمائے (آمین)۔"
محبت۔۔۔ایک سطحی جائزہ
"آئیے آج اس جذبے کی بات کریں، جو نا صرف اس گروپ کی اور اس کائنات کی اساس ہے، بلکہ بہت سے گروپ والوں کے لئے ایک معمہ بھی ہے۔ یہ وہ جذبہ ہے جس پہ خدا بھی ناز کرتا ہے اور جو انسانیت کی معراج بھی ہے۔ یہ جذبہ Ether کی طرح ہر جگہ، ہر دم کارگر دکھتا ہے۔ دیکھنے والی آنکھ ہو، تو کائنات کا ذرہ ذرہ اس جذبہ میں نہاں ہے۔ آدم (علیہ السلام) کی تخلیق، عیسیٰ (علیہ السلام) کی معصومانہ ضد، ابراہیم (علیہ السلام) کی قربانی اور محمد (صلی اللہ وسلم) کی معراج، سب اسی کے تو کرشمے ہیں۔ جی ہاں، بات محبت ہی کی ہو رہی ہے۔مھبت کسی ایسی ذات یا چیز کے تقرب کی آرزو کا نام ہے جس کے سامنے انسان اپنی انا کو سرنگوں کر چکا ہو۔ یہ جذبہ انسان کی گھٹی میں رکھ دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ، ہر چیز سے انسیت اور محبت کی بنیاد پر رشتہ قائم کرتا ہے۔ وہ نفع اور نقصان سے بے نیاز ہو کر ہر شے کو چاہتا ہے۔ تو یہ بات طے پائی کہ محبت ہر ہی انسان میں ہوتی ہے، اور وہ کسی نہ کسی شے سے کرتا بھی ضرور ہے۔ بات تو (خود) شناسائی کی ہے۔ کیا وہ اس بات کو جان بھی پاتا ہے؟ ہر محبت کا انت ایک سا نہیں ہوتا۔ کسی مادی شے کی محبت یا خود ہی سے محبت، انسان کی ذات کو دوام نہیں بخشتی بلکہ اس میں حرص اور بے سکونی کا باعث بنتی ہے۔ اس کے برعکس انسان سے محبت وہ واحد محبت ہے، جو اسے مادیت سے بے نیاز کرتی ہے اور خالقِ حقیقی کی راہ سُجاتی ہے۔ اسی لیئے سب محبتوں، انسیتوں میں سب سے افضل انسان سے محبت کو ٹھہرایا گیا ہے۔ یہ وہ رشتہ ہے، جو انسان کو خالق سے ملاتا ہے۔ اللہ اور اس کے نبی (صلی اللہ علیہ و سلم) کی حقیقی سنت ہے۔
محبت کا پہلا، سب سے اہم جزو اپنی ذات کو فنا کرنے کا ہے۔ خود کی انا کو غلام کرنا اور اسے کسی کا تابع کر دینا ہی محبت کی اصل ہے۔ عشقِ مجازی میں انسان کسی ایک شے کے سامنے خود کی انا کو سرنگوں کرتا ہے، جبکہ عشقِ حقیقی میں اس کی انا کُل کائنات کو سربسجود ہوتی ہے۔ محبت کا سفر بہت لمبا اور مرتبے والا سفر ہے۔ بہر صورت ذات ذرہء بےنشاں ہوتی ہی ہے۔ فضل ہو جائے، تو عشقِ مجازی، عشقِ حقیقی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اپنی بے مائیگی اور کائنات کی ہر شہ کی کبریائی کا یقین نصیب ہوتا ہے۔ فقر کا ہدیہ ملتا ہے۔ عرفان نصیب ہوتا ہے۔ وہ سکون ملتا ہے، جسے زوال نہیں۔ مادیت سے بے نیازی نصیب ہوتی ہے۔ ہر ذرہ میں ربوبیت دِکھنے لگتی ہے۔ بندہ حسد سے، حرص سے اور فکرِ دنیا جیسے جذبات سے ماورا ہو جاتا ہے۔ چشمِ بینا نصیب ہو جاتی ہے جو اچھے برے، کھرے کھوٹے اور سیاہ سفید کا فرق مٹا ڈالتی ہے، ہر چیز میں ربوبیت دِکھنے لگتی ہے۔
ہاں! یہ بات بھی ذہن نشین ہونی چاہیے کہ عشقِ مجازی ہر کسی کا مقدر، لیکن عشقِ حقیقی صرف اسی کے لئے جس پہ خدا کا اور خدا والوں کا فضل ہو؛ اور جو اس فضل کا شکر ادا کرنا جانتا ہو۔ شکر، اپنے پہ ہوئے فضل اور انعام کو دوسروں تک پہنچانے کا نام ہے۔ یہ الحمدللہ، جزاک اللہ اور شکریہ جیسے الفاظ کی معراج ہے۔ تنگ دل، تنگ نظر اور کم حوصلہ کے لئے یہ سوغات نہیں ہے۔ رتبے والوں کا تاجِ خاکستری ہے یہ۔
تو کہنے کا مقصد یہ ہوا کہ سراپا محبت ہر کوئی ہی ہے، ہر کسی پہ ہی رب کا انعام ہے اور یہ انعام بندے پر ہر وقت، ہر جگہ، ہر حالت میں رہتا ہے۔ بات کی اصل تو اس انعام کو جان لینا اور اسے دوسروں تک پہنچانا ہے۔ فنا ہو کر، بقا پا لینے کا واحد ذریعہ یہی تو ہے۔ اللہ کے حبیب (صلی اللہ علیہ و سلم) نے بھی، اللہ کے فضل کو اوروں تک پہنچایا، یہی اس ذات (صلی اللہ علیہ و سلم) کی معراج تھی اور یہی بات خالقِ بر حق کو عزیز بھی ہے۔ تو دعا ہے کہ ربِ کائنات ہمیں ہم پر ہوئے انعامات کو جاننے، اور انھیں اوروں کے ساتھ شئیر کرنے کی تو فیق عطا فرمائے (آمین)۔"
(نعمان رفیق مرزا۔ میونخ)