نعمان رفیق مرزا
محفلین
کافی عرصہ پہلے، کچھ دوستوں نے فیس بک کے ایک پیج کے لیے کچھ لکھنے کو بولا تھا۔ موضوع کے سلسلے میں چھوٹ تھی۔ اس پیج کے ممبران، اکثر محبت کے بارے بات کرتے رہتے تھے۔ تو میں نے پھر اسی چیز کے بارے کچھ اظہارِ خیال کر کے ان کے ساتھ شئیر کیا۔ تو آج آپ کی خدمت میں بھی پیش کر رہا ہوں۔ براہ مہربانی تھوڑا وقت نکال کر ضرور نظر ڈالیے گا۔ جہاں بہتری کی گنجائش ہو، وہاں ضرور رہنمائی کیجیے گا۔ میں بیحد ممنون ہوں گا۔
دو تحاریر ہیں۔ پہلی ایک نشست میں مکمل نہ کر پایا۔ سو نامکمل ہی رہی۔ دوبارہ لکھنے بیٹھا، تو ذہن کسی اور طرف کو چل نکلا۔ تصحیح اور تبصرہ حاصل کرنے کے لیے، دونوں ہی تحاریر شئیر کر رہا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نا مکمل تحریر۔۔۔۔۔
محبت کو ہرکوئی اپنے انداز میں، اپنے تجربات کی بنا پر define کرتا ہے اورحیرت کی بات یہ کہ، اس کی تعریف غلط معلوم نہیں پڑتی۔ یہ بات تعریف کے کامل ہونے کی نہیں، بلکہ جذبے کے وسیع ہونے کی ہے؛ اس کے بڑے پن کی ہے کہ وہ ہر طرح کی تعریف کو اپنے اندر سمو لیتا ہے؛ اسی طرح کا دِکھنے لگتا ہے جیسے اس کو define کیا جائے۔ تو بات یہ طے پائی کہ محبت وسیع ہے، لامکاں اور لازماں!
پھر یہ کہ یہ جذبہ بہت ہی طاقت والا ہے، بہت constructive ہوتا ہے۔مٹی سے گل و لالہ کا نکلنا اسی جذبے کے مرہونِ منت ہے؛ یہ جذبہ ہو تو آگ کو اپنی تپش سے لاعلم کر دے۔ ناری کو نوری کر ڈالے؛ مٹی کو سونا کر دے۔ عرب جیسی ہٹ دھرم قوم کے دلوں کا حال بدل ڈالے۔ تو چھوٹی سے چھوٹی تعمیری تبدیلی سے لے کر، بڑے بڑے کام بھی یہ آسان کر ڈالتی۔زمین اور انسان کی تخلیق اسی جذبے کے دو بہت بڑے معجزے ہیں۔ تو رب نے بھی جب ’کن فیا کن‘ کہا ہو گا، تو بڑی محبت سے کہا ہو گا۔اس لیے کہ جب یہ جذبہ ہو تو پھر چیزوں کو بدلتے دیر نہیں لگتی۔ استاد کو سرزنش نہیں کرنا پڑتی، بات پیار سے ہی بن جاتی ہے۔ اور صرف بنتی ہی نہیں، سنورتی ہی جاتی ہے۔ بگاڑ نہیں آتا اُس میں۔ یہی اس کاکمال ہے۔ تو ہمارے ہاں دو باتیں ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ لوگوں کو اس جذبے کی طاقت کا علم ہے۔ وہ اسے محسوس کرنا چاہتے ہیں۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ اس احساس کے لیے در بدر ہو تے ہیں، تو بات چنداں غلط نہ ہو گی۔ بس، اسی پیاس اور تلاش بسیار میں جب وہ کسی غیر معیاری جذبے کے جال میں پھنستے ہیں، اور پھر اس کی destructiveness کے باعث ٹوٹتے ہیں؛ تو محبت ہی کو دوش دیتے ہیں۔ محبت تب کھڑی انہیں مسکرا کر دیکھ رہی ہوتی، وہ جانتی ہے کو اس کے سر وہ الزام دیا جا رہا ہے، جس سے وہ بالکل معصوم اور ماورا ہے۔ اس لیے کہ یہ جذبہ تو بگاڑ پیدا کر ہی نہیں سکتا۔ یہ تو constructive ہوتاہے ، نہ کہ destructive! دوسری بات یہ کہ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبت کسی ایسی ذات یا چیز کے تقرب کی آرزو کا نام ہے جس کے سامنے انسان اپنی انا کو سر نگوں کر چکا ہو۔ یہ جذبہ انسان کی گھٹی میں رکھ دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ، ہر چیز سے انسیت اور محبت کی بنیاد پر رشتہ قائم کرتا ہے۔ وہ نفع اور نقصان سے بے نیاز ہوکر ہر شے کو چاہتا ہے۔تو یہ بات طے پائی کہ محبت ہر ہی انسان میں ہوتی ہے، اور وہ کسی نہ کسی شے سے کرتا بھی ضرور ہے۔ بات تو( خود) شناسائی کی ہے۔ کیا وہ اس بات کو جان بھی پاتا ہے؟ہر محبت کا انت ایک سا نہیں ہوتا۔ کسی مادی شے کی محبت یا خود ہی سے محبت، انسان کی ذات کو دوام نہیں بخشتی بلکہ اس میں حرص اور بے سکونی کا باعث بنتی ہے۔ اس کے برعکس انسان سے محبت وہ واحد محبت ہے، جو اسے مادیت سے بے نیاز کرتی ہے اور اسے خالقِ حقیقی کی راہ سجاتی ہے۔ اسی لئے سب محبتوں، انسیتوں میں سب سے افضل انسان سے محبت کو ٹھہرایا گیا ہے۔ یہ وہ رشتہ ہے، جو انسان کو خالق سے ملاتا ہے۔اللہ اور اس کے نبی کی حقیقی سنت ہے۔
محبت کا پہلا اور سب سے اہم جزو اپنی ذات کو فنا کرنے کا ہے۔ خود کی انا کو غلام کرنا او راسے کسی کے تابع کر دینا ہی محبت کی اصل ہے۔ عشقِ مجازی میں انسان کسی ایک شے کے سامنے خود کی انا کو سرنگوں کرتا ہے، جبکہ عشقِ حقیقی میں اس کی انا کُل کائنات کو سر بسجود ہوتی ہے۔محبت کا سفر بہت لمبا اور مرتبے والا سفر ہے۔ بہر صورت ذات ذرئہ بے نشاں ہوتی ہی ہے۔فضل ہو جائے، تو عشقِ مجازی عشقِ حقیقی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اپنی بے مائیگی اور کائنات کی ہر شہ کی کبریائی کا یقین نصیب ہوتا ہے۔ فقر کا ہدیہ ملتا ہے۔عرفان نصیب ہوتا ہے۔ وہ سکو ن ملتا ہے، جسے زوال نہیں۔مادیت سے بے نیازی نصیب ہوتی ہے۔ ہر ذرہ میں ربوبیت دکھنے لگتی ہے۔ بندہ حسد سے، حرص سے اور فکرِ دنیاجیسے جذبات سے ماورا ہو جاتا ہے۔ دیدئہ بینا نصیب ہو جاتا ہے جو اچھے برے، کھرے کھوٹے اور سیاہ سفید کا فرق مٹا ڈالتا ہے، ہر چیز میں ربوبیت دکھنے لگتی ہے۔
ہاں!یہ بات بھی ذہن نشین ہونی چاہئے کہ عشقِ مجازی ہر کسی کا مقدر، لیکن عشقِ حقیقی صرف اسی کے لئے جس پہ خدا کا اور خدا والوں کا فضل ہو؛ اور جو اس فضل کا شکر ادا کرنا جانتاہو۔ شکر ، اپنے پہ ہوئے فضل اور انعام کو دوسروں تک پہنچانے کا نام ہے۔ یہ الحمد للہ، جزاک اللہ اور شکریہ جیسے الفاظ کی معراج ہے۔ تنگ دل، تنگ نظر اور کم حوصلہ کے لئے یہ سوغات نہیں ۔رتبے والوں کا تاجِ خاکستری ہے یہ۔
توکہنے کا مقصد یہ ہوا کہ سراپا محبت ہر کوئی ہی ہے، ہر کسی پہ ہی رب کا انعام ہے اور یہ انعام بندے پر ہر وقت ، ہر جگہ، ہر حالت میں رہتا ہے۔ بات کی اصل تو اس انعام کو جان لینا اور اسے دوسروں تک پہنچانا ہے۔فنا ہو کر، بقا پا لینے کا واحد ذریعہ یہی تو ہے۔ اللہ کے حبیب نے بھی، اللہ کے فضل کو اوروں تک پہنچایا، یہی اس ذات کی معراج تھی اور یہی بات خالقِ بر حق کو عزیز بھی ہے۔ تو دعا ہے کہ ربِ کائنات ہمیں ہم پر ہوئے انعامات کو جاننے، اور انھیں اوروں کے ساتھ شئیر کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)۔
دو تحاریر ہیں۔ پہلی ایک نشست میں مکمل نہ کر پایا۔ سو نامکمل ہی رہی۔ دوبارہ لکھنے بیٹھا، تو ذہن کسی اور طرف کو چل نکلا۔ تصحیح اور تبصرہ حاصل کرنے کے لیے، دونوں ہی تحاریر شئیر کر رہا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نا مکمل تحریر۔۔۔۔۔
محبت کو ہرکوئی اپنے انداز میں، اپنے تجربات کی بنا پر define کرتا ہے اورحیرت کی بات یہ کہ، اس کی تعریف غلط معلوم نہیں پڑتی۔ یہ بات تعریف کے کامل ہونے کی نہیں، بلکہ جذبے کے وسیع ہونے کی ہے؛ اس کے بڑے پن کی ہے کہ وہ ہر طرح کی تعریف کو اپنے اندر سمو لیتا ہے؛ اسی طرح کا دِکھنے لگتا ہے جیسے اس کو define کیا جائے۔ تو بات یہ طے پائی کہ محبت وسیع ہے، لامکاں اور لازماں!
پھر یہ کہ یہ جذبہ بہت ہی طاقت والا ہے، بہت constructive ہوتا ہے۔مٹی سے گل و لالہ کا نکلنا اسی جذبے کے مرہونِ منت ہے؛ یہ جذبہ ہو تو آگ کو اپنی تپش سے لاعلم کر دے۔ ناری کو نوری کر ڈالے؛ مٹی کو سونا کر دے۔ عرب جیسی ہٹ دھرم قوم کے دلوں کا حال بدل ڈالے۔ تو چھوٹی سے چھوٹی تعمیری تبدیلی سے لے کر، بڑے بڑے کام بھی یہ آسان کر ڈالتی۔زمین اور انسان کی تخلیق اسی جذبے کے دو بہت بڑے معجزے ہیں۔ تو رب نے بھی جب ’کن فیا کن‘ کہا ہو گا، تو بڑی محبت سے کہا ہو گا۔اس لیے کہ جب یہ جذبہ ہو تو پھر چیزوں کو بدلتے دیر نہیں لگتی۔ استاد کو سرزنش نہیں کرنا پڑتی، بات پیار سے ہی بن جاتی ہے۔ اور صرف بنتی ہی نہیں، سنورتی ہی جاتی ہے۔ بگاڑ نہیں آتا اُس میں۔ یہی اس کاکمال ہے۔ تو ہمارے ہاں دو باتیں ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ لوگوں کو اس جذبے کی طاقت کا علم ہے۔ وہ اسے محسوس کرنا چاہتے ہیں۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ اس احساس کے لیے در بدر ہو تے ہیں، تو بات چنداں غلط نہ ہو گی۔ بس، اسی پیاس اور تلاش بسیار میں جب وہ کسی غیر معیاری جذبے کے جال میں پھنستے ہیں، اور پھر اس کی destructiveness کے باعث ٹوٹتے ہیں؛ تو محبت ہی کو دوش دیتے ہیں۔ محبت تب کھڑی انہیں مسکرا کر دیکھ رہی ہوتی، وہ جانتی ہے کو اس کے سر وہ الزام دیا جا رہا ہے، جس سے وہ بالکل معصوم اور ماورا ہے۔ اس لیے کہ یہ جذبہ تو بگاڑ پیدا کر ہی نہیں سکتا۔ یہ تو constructive ہوتاہے ، نہ کہ destructive! دوسری بات یہ کہ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبت ۔ ایک سطحی جائزہ
آئیے آج اس جذبے کی بات کریں، جو نہ صرف اس گروپ کی اور اس کائنات کی اساس ہے، بلکہ بہت سے گروپ والوں کے لئے ایک معمہ بھی ہے۔ یہ وہ جذبہ ہے جس پہ خدا بھی ناز کرتا ہے اور جو انسانیت کی معراج بھی ہے۔یہ جذبہEther کی طرح ہر جگہ، ہر دم کارگر دکھتا ہے۔ دیکھنے والی آنکھ ہو، تو کائنات کا ذرہ ذرہ اس جذبہ میں نہاں ہے۔آدم کی تخلیق، عیسی کا ایثار، موسیٰؑ کی معصومانہ ضد، یعقوبؑ کا صبر جمیل، ابراہیمؑ کی قربانی اور محمدّ کی معراج، سب اسی کے تو کرشمے ہیں۔ جی ہاں، بات محبت ہی کی ہو رہی ہے۔محبت کسی ایسی ذات یا چیز کے تقرب کی آرزو کا نام ہے جس کے سامنے انسان اپنی انا کو سر نگوں کر چکا ہو۔ یہ جذبہ انسان کی گھٹی میں رکھ دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ، ہر چیز سے انسیت اور محبت کی بنیاد پر رشتہ قائم کرتا ہے۔ وہ نفع اور نقصان سے بے نیاز ہوکر ہر شے کو چاہتا ہے۔تو یہ بات طے پائی کہ محبت ہر ہی انسان میں ہوتی ہے، اور وہ کسی نہ کسی شے سے کرتا بھی ضرور ہے۔ بات تو( خود) شناسائی کی ہے۔ کیا وہ اس بات کو جان بھی پاتا ہے؟ہر محبت کا انت ایک سا نہیں ہوتا۔ کسی مادی شے کی محبت یا خود ہی سے محبت، انسان کی ذات کو دوام نہیں بخشتی بلکہ اس میں حرص اور بے سکونی کا باعث بنتی ہے۔ اس کے برعکس انسان سے محبت وہ واحد محبت ہے، جو اسے مادیت سے بے نیاز کرتی ہے اور اسے خالقِ حقیقی کی راہ سجاتی ہے۔ اسی لئے سب محبتوں، انسیتوں میں سب سے افضل انسان سے محبت کو ٹھہرایا گیا ہے۔ یہ وہ رشتہ ہے، جو انسان کو خالق سے ملاتا ہے۔اللہ اور اس کے نبی کی حقیقی سنت ہے۔
محبت کا پہلا اور سب سے اہم جزو اپنی ذات کو فنا کرنے کا ہے۔ خود کی انا کو غلام کرنا او راسے کسی کے تابع کر دینا ہی محبت کی اصل ہے۔ عشقِ مجازی میں انسان کسی ایک شے کے سامنے خود کی انا کو سرنگوں کرتا ہے، جبکہ عشقِ حقیقی میں اس کی انا کُل کائنات کو سر بسجود ہوتی ہے۔محبت کا سفر بہت لمبا اور مرتبے والا سفر ہے۔ بہر صورت ذات ذرئہ بے نشاں ہوتی ہی ہے۔فضل ہو جائے، تو عشقِ مجازی عشقِ حقیقی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اپنی بے مائیگی اور کائنات کی ہر شہ کی کبریائی کا یقین نصیب ہوتا ہے۔ فقر کا ہدیہ ملتا ہے۔عرفان نصیب ہوتا ہے۔ وہ سکو ن ملتا ہے، جسے زوال نہیں۔مادیت سے بے نیازی نصیب ہوتی ہے۔ ہر ذرہ میں ربوبیت دکھنے لگتی ہے۔ بندہ حسد سے، حرص سے اور فکرِ دنیاجیسے جذبات سے ماورا ہو جاتا ہے۔ دیدئہ بینا نصیب ہو جاتا ہے جو اچھے برے، کھرے کھوٹے اور سیاہ سفید کا فرق مٹا ڈالتا ہے، ہر چیز میں ربوبیت دکھنے لگتی ہے۔
ہاں!یہ بات بھی ذہن نشین ہونی چاہئے کہ عشقِ مجازی ہر کسی کا مقدر، لیکن عشقِ حقیقی صرف اسی کے لئے جس پہ خدا کا اور خدا والوں کا فضل ہو؛ اور جو اس فضل کا شکر ادا کرنا جانتاہو۔ شکر ، اپنے پہ ہوئے فضل اور انعام کو دوسروں تک پہنچانے کا نام ہے۔ یہ الحمد للہ، جزاک اللہ اور شکریہ جیسے الفاظ کی معراج ہے۔ تنگ دل، تنگ نظر اور کم حوصلہ کے لئے یہ سوغات نہیں ۔رتبے والوں کا تاجِ خاکستری ہے یہ۔
توکہنے کا مقصد یہ ہوا کہ سراپا محبت ہر کوئی ہی ہے، ہر کسی پہ ہی رب کا انعام ہے اور یہ انعام بندے پر ہر وقت ، ہر جگہ، ہر حالت میں رہتا ہے۔ بات کی اصل تو اس انعام کو جان لینا اور اسے دوسروں تک پہنچانا ہے۔فنا ہو کر، بقا پا لینے کا واحد ذریعہ یہی تو ہے۔ اللہ کے حبیب نے بھی، اللہ کے فضل کو اوروں تک پہنچایا، یہی اس ذات کی معراج تھی اور یہی بات خالقِ بر حق کو عزیز بھی ہے۔ تو دعا ہے کہ ربِ کائنات ہمیں ہم پر ہوئے انعامات کو جاننے، اور انھیں اوروں کے ساتھ شئیر کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)۔