نور وجدان
لائبریرین
محبت اور ایمان
''کہتے ہیں سوچوں کے پرندوں کو بدن کی قید سے آزاد کرکے موت نہ دو ۔ یہ پرندے تمہاری روحیں ہیں اور سوچ کے پر بہت جلد پروان چڑھتے ہیں۔ اک دفعہ لب سے جو ادا ہوا ۔ اس کا صلہ یوں ملا کہ روح نے ناتا توڑ کر بدن سے انا کی تلوار سنبھال لی۔ بدن زخمی اور چور چور ہوا بالآخر مٹی پہ مٹی مٹی ہو گیا۔زندگی کی قبر پر سوچ نے کتبہ لگا یا۔''مجھے عیاں نہ ہونے دینا۔ورنہ خونِ جگر تری آنکھوں سے رس کر جان کو گھائل کر دے گا۔۔۔'' خرم نے کتاب کو سائیڈ پر رکھا اور جھر جھری لی ۔۔
سوچ انسان کو گھائل کرتی ہے تو ہے ۔۔۔ پر اس کے لئے انسان سوچنا چھوڑ دے یا اظہار کو رہنے دے۔۔ خرم سوچوں میں محو تھا ۔۔ موبائل کی بپ نے اسے لاشعور سے شعور میں لا پھینکا۔مسکراہٹ ہونٹوں پر لاتے ہوئے بہت ہی شستہ اردو میں بولا۔۔
" آخر یاد کی بوندوں نے مجبور کر دیا مجھ سے بات کرنے پہ، کتنا ناراض رہ پاتی ۔۔ اور جہاں تک آپ کی فرمائش کا تعلق ہے مجھے اسکی تُک سمجھ نہیں آتی ۔ میں سنگاپور آیا ہوں اور آپ مجھ سے کہ رہی آپ کو عقاب لا دوں وہ بھی بالکل کالے گہرے رنگ کا۔۔۔ کبھی کبھی مجھے یہ سرا سرا خبط لگتا ہے ۔ ۔۔"
ایمان دل ہی دل میں اور ناراض ہو رہی تھی ۔۔'' ٹھیک ہے آپ مت لائیں میں نے آپ سے ہفت ِ اکلیم کی دولت مانگی۔۔ آپ کو میں ذرا بھر عزیز نہیں۔۔۔!!
خرم سوچنے پر مجبور ہوا کہ اسکی فیانسی دنیا کی انوکھی فیانسی ہے ۔۔۔ اسے شوق پرندے پالنے کا ہے چلو پرندے تو دور کی بات ۔۔ عقاب کبھی کسی لڑکی کا شوق ہوا۔وہ اسے کسی اور روپ میں دیکھنا چاہتا تھا۔ کہنے سے ڈرتا تھا کہیں دربار ِ عشق میں اسے ٹھوکر نہ لگ جائے یا اس سے ایمان ناراض ہو جائے۔ اس نے دل ہی دل میں سو چا اچھا ہے ۔۔۔!
''اتنی جلد ناراض ہوگئ ہو میں ایک نہیں دو عقاب لے آ ؤں گا ۔۔ اور کہوں تو ان کی ساری اقسام کا نمونہ لا دوں گا۔۔۔۔''
'' آپ مجھے کبھی سمجھ ہی نہیں سکتے اور نہ جان پائیں گے مجھے عقاب کیوں پسند ہے ۔۔ پسند تو مجھے ہیرے بھی ہیں ، گلاب بھی ہیں اور خوشبو بھی ہیں ۔۔۔ مجھے بلبل بہت پسند ہے ۔۔ اسکا گانا جب وہ گاتی ہے تو میں کھو جاتی ہے ۔۔ آپ بھول گئے میری بلبل کو ۔۔؟ مجھے عقابوں کی ضرورت کیوں ہوگی ۔ مجھے صرف ایک چاہیے بس۔۔۔"
'' ارے اس کو کون بھول سکتا ہے اور یہی تو سوچ رہا ہوں بلبل کے ہوتے ہوئے عقاب کی کیا ضرورت پڑی ۔۔ میری سمجھ سے یہ شوق تو بالا تر ہے ۔۔ بس کیا کریں آپ کی بات ہے ، اس عشق کی بات ہے یا حسن کی بات ہے ۔۔ کچھ کرنا ہے ۔۔۔ آپ کا شاہکار لے کر آؤں گا میں ۔۔۔۔ ۔۔۔ "
'' آپ کو اگر نہیں پتا مجھے عقاب کی ضرورت کیوں پڑی تو میں کیسے مان لوں آپ کو مجھ سے محبت ہے ۔۔ آپ کو مجھ سے محبت نہیں ورنہ محبت میں سوال اور تکرار نہیں ہوتی ۔۔ جب محبت کا دعوٰی کرکے کہو ایسا کیوں ہوا تو محبت خود خارج ہو جاتی ہے ۔۔۔ آپ کہاں سمجھ پائیں گے ۔۔۔"
خرم نے گوگل پہ سرچ شروع کی کہ لڑکیاں پرندے یا عقاب کیوں پسند کرتی ہیں ۔۔ اور کافی ریسرچ کی یہ جاننے کے لیے نہیں اسے عقاب ہی کیوں پسند بلکہ یہ جاننے کے لیے کہ اس کا محبت سے کیا تعلق ہو گا ۔۔۔ اس کو جواب کوئی نہ مل سکا ۔۔ محبت کے جواب اگر یہ میڈیا دے پائے تو بات بھی ہو ۔۔۔ یہاں رائے کی بہتان اور زیادہ پریشان کرتی ہے ۔ اس نے لیپ ٹاپ بند کر دیا اور ایمان کو سوچنے لگ گیا۔۔۔ سائیڈ ٹیبل پہ اسکو رکھا اور سرہانے پہ سر ٹکائے لیمپ کی مدھم روشنی جو کھڑکی سے آتی ہوئی چاندنی میں مدغم ہو رہی تھی اس بات کا پتا دے رہی تھی کہ اسکے لبوں پر مسکان تھی ۔۔۔ یا اپنی مسکان کا عکس تھا۔۔ محبت کا نور تھا جس نے اسکا چہرا بھی پر نور بنا دیا ۔۔۔ ایمان کو کیسے بتاؤں کہ میں کتنی محبت کرتا ہوں ۔ وہ شاید نہ سمجھ پائے ۔۔۔ شاید پرندے میں مجھے ڈھوندتی ہے ۔۔۔شاید اپنا تراشا خدا ان میں تلاش کرتی ہے یا شاید محبت پہ اعتبار نہیں کرتی ۔۔ کچھ تو ہے جو مجھ سے ہٹ کر وہ ان کو مرکزِ سوچ بناتی ہے ۔۔۔۔ میں اسکو کیسے بتاؤں یہ سب مجھے گھائل کر رہا ہے ۔۔۔۔ پرندہ مرا حریف بنے مجھے گوارہ کہاں ہوگا۔۔۔یہ بات وہ سمجھ نہ پائے گی ۔۔۔اس نے آگے کا تعین کرلیا کہ اسکو کیا کرنا ہے ۔۔ شاید وہ محبت کی آزمائش لینے جا رہا تھا ۔ اسے نہیں پتا تھا محبت خود بڑی آزمائش ہو۔ محبت کرنے والے محبت کی عزت کرتے ہیں ۔۔ اس سے امتحان نہیں لیتے ورنہ نتائج سنگین ہوتے ہیں ۔۔ یا محبت آپ کے دام میں آجاتی ہے اور اکثر فریب سے پردہ اٹھ جاتا ہے ۔ محبت ناراض ہو جاتی ہے ۔ محبت ناراض ہوجائے تو بندہ کہیں کا نہیں رہتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اوئے خرم تو کب کا واپس آچکا ہے پاکستان ملنے نہیں آیا یار۔۔ ابھی تو بھابھی آئ نہیں گھر میں تو پہلے دیوانہ ہو گیا ۔۔" حماد نے پیار بھرے غصے میں اس سے پوچھا۔
”حماد یار۔۔ ! تیری بھابھی شاید اب کبھی اس گھر نہ آئے ۔۔ لاؤنج میں بیٹھنے کے بعد اس نے اس سے کہا۔۔ ساتھ ہی خانساماں کو بُلا کر دوپہر کا مینیو بتایا۔۔ ''آج دوپہر کا کھانہ میری طرف سے۔۔ چھٹی کا دن تھا وہ بھی اکیلا تھا اور اسی کا انتظار کر رہا تھا ۔۔ اسکےساتھ ہمیشہ آؤئٹنگ پہ ویک اینڈ پہ جانا اس کا معمول تھا۔ مگر اس دفعہ اس نے ہائیکنگ کا پلان کینسل کر دیا۔گھر رہنا مناسب سمجھا۔ حماد کا آنا بھی اسے غنیمت لگ رہا تھا۔۔
'' کوئی جھگڑا ہو ہے بھابھی سے ۔۔۔؟ منہ کیوں اترا ہوا تیرا۔۔۔ ہائیکنگ پہ بھی نہیں گیا۔۔ مجھے ملنا بھی نہیں آیا۔۔۔ مجھے پتا ہے اک گھڑا ہوا جواب پہلے سے موجود ہو گا تیرے پاس تو اکیلا ہے بہت۔۔۔ اس لئے تو تیری بھابھی اور میں نے مل کر تیری بات اپنے خاندان میں کی ۔۔ مجھے کیا پتا تھا اس کے بعد بھی تیری یہ لٹکی ہوئی شکل دیکھنے کو ملے گی ۔۔
خرم سوچنے لگا اچھا احسان کیا ہے ۔۔زندگی اور بھی عذاب سی لگنے لگی ہے۔ کیوں ایسا ہوتا ہے اپنے بڑوں کا کرنا چھوٹے بھگتے۔۔ بچپن میں جوان ہوا ۔۔! اور جوانی میں بڑھاپا۔۔! لوگ کہتے ہیں میں تو ابھی جوان ہوں دل مجھ ہی طعنہ کستہ ہے میں کتنا جوان ہوں ۔۔! حقیقت بدلتی نہیں۔یہ یونیورسل جو ہوئ۔۔ اللہ محبت کرتا ہے بندوں کو اس لئے کہتا ہے دنیا میں عذاب سہ لو تاکہ جل کر کندن بن جاؤ تمہیں نہ لگے یہ دنیا ہی آخری ٹھکانہ ہے اور دکھوں کے سیلاب میں خوشی کی بارش کر دیتا ہے ۔۔ مگر۔۔۔۔۔!!!!
''ارے خرم تم یہی ہو۔۔۔؟ میری کسی بات کا جواب نہیں دے رہے گم صم سے ہو ۔۔۔بات کیا ہے۔۔۔؟
یار۔۔ بات کچھ نہیں بس آج کل ماں جی یاد آرہی اور پیارے سے بابا جی ۔۔ بہت شفیق تھے ۔۔ اتنے کہ مجھے چھوڑ گئے۔۔ یہ بھی نہیں سوچا میں کیسے رہوں گا۔۔۔ بڑی بے وفا ماں ہے میری مجھے چھوڑ کر اپنے عاشق سے جا ملی۔۔۔مجھے اس جہنم میں اکیلا چھوڑ گئ۔۔۔!!!
اگر اللہ کے پاس جانا تھا تو مجھے اس دنیا میں نہ لاتی اور اگر لائی تھی تو میری دنیا سے نہ جاتی۔۔۔
لاحول ولا۔۔۔۔!! حماد نے اسے روک کر گرج دار آواز میں کہا ایسا جلال میں پہلی دفعہ آیا تھا۔۔ اگر اس کا دوست نہ ہوتا تو دو چار اسکو لگا ہی دیتا یا ہسپتال کا چکر ہی لگوا دیتا۔۔ آخر کو وہ میجر کے عہدے پر تعینات ہو ا تھا۔۔ اچھا خا صا اثر و رسوخ تھا۔۔
''ایسی بکواس اور واہیات بات کرتے وقت تجھے دس دفعہ سوچ لینا چاہیے۔۔ تو نے دو پیدا کرنے والوں کی تو ہین کی ہے ۔ ان دونوں کا مجرم ہے تو۔۔ قسم سے تیرا خون میرے ہاتھوں نہ ہوجا اب نہ بولیں اور۔۔۔
''تم لوگ سچی بات کہاں سنتے ہوں دین کے نام پر تڑپ تو اٹھتے ہو پر یہ پتا نہیں ہوتا اس میں لکھی ہدایات کا مفہوم کیا ہے ۔۔۔!!!
یہ میرا خدا سے معاملہ تھا اس کا میرا حساب چلتا ہے ۔۔۔ وہ میرے دل میں رہتا ہے مگر دل شکوہ بھی کرتا ہے ۔۔ منافق نہیں میرا دل تم لوگوں جیسا۔۔۔کیا محبوب کو عاشق کہنا جرم ہے ۔۔۔؟ تم لوگ الفاظ کا روگ پالتے ہو اور فکر نہیں کرتے اصلی روگ تو روح کے ہوتے ہیں ۔۔ تم اپنا کینہ دل میں رکھتے ہو اور میں بلا جھجک کہ دیتا ہوں ۔۔۔۔" اگر حماد جلال میں تھا تو اس سے زیادہ جلال تو خرم کو آگیا۔۔ کب کا ''لاوہ ''تھا دل سے نکلا۔۔۔
حماد اسکی خون رنگ آنکھوں میں جھلکتا عکس پہلی دفعہ دیکھا تھا۔۔۔ یک دم جھاگ کی طرح صوفے پہ بیٹھ گیا اور سوچنے لگا اب کیا مسلہ ہے اسکے ساتھ۔۔۔۔۔۔!!!
'' خاموشی کی چاپ کو گونجتی موبائیل کی آواز نے توڑ کر جمود کو ختم کیا۔۔۔ خرم نے اس آواز کا گلا گھونٹا۔۔ پھر اسکا موبائیل سسکیاں لینے لگا جیسے وہ اسکے ہاتھوں کا بے بس سا کھلونہ ہے ۔۔
سلام۔۔ کون۔۔۔ ! کون ایمان۔۔ سوری رانگ نمبر محترمہ۔۔ آپ نے غلط نمبر ڈائل کیا۔۔ یہاں خرم نہیں رہتا آپ کا۔۔۔"اور
ٹھا سے فون بند کر دیا۔۔ پھر حماد سے بولا تمہارے قبیل کی لڑکی تھی بالکل تم جیسی منافق۔۔۔ بولتی بھی تم جیسا ہے ۔۔ ایسا کہ لگے کہ خوشبو مہک رہی اور مہکتی خوشبو میں کانٹے ساتھ لاتی ہے ۔۔ " اس سے تعلق کیا رکھنا۔۔ منافق دنیا ۔۔ منافق لوگ ۔۔۔ مطلبی ساتھی۔۔
خرم کی اواز یک دم ختم ہوگئی۔۔۔ شیشہ ٹوٹا ۔۔۔ آواز زور کی تھی ۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا کوئ جنگ برپا ہے ۔۔ حق و باطل کا ٹکراؤ بس فرق مشکل ہو رہا ہے حق پہ کون اور باطل کیا ۔۔۔ایک مکہ۔۔ دوسرا۔۔ اس کے بعد گھونسے۔۔۔ خرم کی ناک سے خون نکلنے لگ گیا
حماد کا جوش پھر کہیں ختم ہوا۔۔بولا۔۔۔
'' آج کے بعد عورت ذات کا نام ادب سے لینا۔ چاہے وہ گھر سے باہر یا گھر کے اندر بڑے احترام کی چیز ہوتی ہے۔۔ ماں ہو یا بیوی ۔۔بہن ہو یا منگیتر۔۔۔ جاب کرنے والی ساتھی یا دوست۔۔ پہلا اصول ادب ہے ۔۔ زندگی میں رشتے ادب کے ترازو میں تو نبھ جاتے ہیں مگر منافقت کے نہیں ۔۔۔ سوچ اصلی منافق کون۔۔۔ مجھے بتا ۔۔ منافقت کیا ہوتی کل تک جس کے قصیدے پڑھتا ہے آج اسے رسوا کر رہا ہے وہ بھی دوست کے سامنے۔۔ عزت کو نیلام کرتا ہے اور کہتا ہے میں منافق نہیں ۔۔ آج کے بعد سے تیری میری یاری ختم ۔۔۔ تجھ پہ سو سلام ۔۔۔اور اسکے بعد یہ جا وہ جا ۔۔ جیسے ہوا سے بھی مقابلہ ہے ۔۔!
خرم نے خون سے بہتی ناک پہ ہاتھ رکھا اسکے ہاتھ گلابی ہوگئے۔۔۔ آسمان کی جانب دیکھا۔۔ جیسے خدا سے ہم کلام ہو ۔۔ ''دیکھ تیرا بندہ مجھے مارتا رہا اور تو دیکھتا رہا۔۔۔ اب اگر مجھے گستاخ کہ کر اپنی جناب سے نکال دے گا تو میں خلق کا روندھا کہاں جاؤں گا۔۔ زمین والےسارے تیرے۔۔ اے آسمان والے تو کیا میرا ہے ۔۔ ؟اگر تو صرف مومنوں کا ہے یا بھیس بدلے کافروں کا ہے تو میں کہاں جاؤں گا ۔۔ ؟؟کس سے باتیں کروں گا کسے اپنا کہوں گا۔۔ ؟؟؟
اب بتا تو کہتا تھا تیری ایمان کو میں نے ناراض کیا۔۔ یہ بھی کیا میری غلطی تھی ۔۔مانا اگر غلط تو اس طرح خون بہا کریں گے ۔۔ اگر خطا پہ خون بہے تو معاف کیسے کرے گا۔ لوگ خدا بنے تو میرا کیا ہوگا۔۔ کیا تو ان کا بس۔۔۔ میں نے ایمان سے کیا کہا۔۔ فقط اظہارِ تمنا کی تھی اپنا دل اور ماضی کھولا تھا ۔۔ سوچا تھا یہ میری زندگی کا حاصل ہے مگر میرا دامن کے چھید تو اور بڑھ گئے ۔۔۔اظہار کرنا اتنا بُرا ہوتا ہے یا سچا ہونا بُرا ہوتا ہے ۔۔۔ اگر میں برا ہوں تو اچھا کون ہے پھر ۔۔۔۔!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم نہ جان پائے کہ بعض لوگ اک وقت کے لئے اپنے سیپ نما جذبات کو چھپا کر رکھتے ہین کہ اک وقت آئے گا تمام تر دل میں جو وہ عیاں ہو جائے گا۔۔ مگر طو فاں میں جانا کہ کنارہ بھی نہیں ملتا۔ہاں نہ ہنسا کر تی میں کہ لوگ محبت کرتے تو مر جاتے ہیں۔ میں نے محبت کو آسیب سمجھا ۔ اس سے پیچھا چھڑانا چا ہا۔ وہ میں ہی کیا جو نہ چاہو وہ نہ ہو۔ اور مجھے دائمی بچھڑبے کے بعد بھی یقیں کے دروازے پر ہی قیام کیا ۔ آج تک اندر داخل نہ ہو پائی ۔ ڈر لگتا تھا کہ مجھے خود کے اقرار سے ۔ میں آج بھی بہت ڈھڑلے سے کہ سکتی ہوں مجھے تم سے محبت نہیں ۔۔۔ میں نے عشق کی دہلیز تمہارے شامِ وصال میں پار نہیں کی اور اپنی صبح ٖمیں بادِ صبا کے زور سے گرتے شبنمی ہجر کی قطروں کو و صالِ یار مان لیا۔۔۔۔
پاکستان سے واپسی پہ وہ ایمان کے پاس گیا۔ جو اپنے نانا کے ساتھ رہا کرتی تھی اسکی ماما نے دوسری شادی کرلی تھی بابا کی وفات کے بعد۔۔ ایمان بابا کو بہت یاد کرتی تھی پرندوں کا شوق اسے بابا کی یاد دلاتا تھا۔ کہتے تھے بیٹا پرندے روح ہیں دنیا کی ۔۔ آسمان کے سفیر ہیں ان کا خیال بالکل اسطرح کرنا چاہیے جسطرح کوئی گلاب کا زمیں پر کرتا ہے ۔ پھول زمین کی اور پرندے آسمان کی رونق ہیں ۔۔ اور درخت کی شاخوں پر ان کا گھر اس بات کی دلالت دیتا ہے ان دونوں کا رشتہ کتنا گہرا ہے ۔
'' ایمان میں چا ہتا ہوں میں تمہیں اچھی طرح سمجھ سکوں ۔۔ اس لیے آج کی رات میں تمہارا سیرینہ ہوٹل میں انتظار کروں گا۔ اگر تم نہ آئی تو سمجھ لوں گا تمہیں مجھ سے محبت نہیں ۔ میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں محبت سے پہلے سمجھنا ضروری ورنہ محبت بھی بے کار جاتی ہے ۔ ' اسکے بعد وہ رکا نہیں ۔۔ اور چلا گیا۔۔۔
رات کو وہ نہیں گئ خرم کا فون بار بار آرہا تھا۔ یہ جانتے ہوئے وہ اس سے محبت کرتی ہے۔ وہ نہیں گئی۔ خرم کا کہنا تھا کہ وہ بہت آسانی سے آسکتی ہے ۔ مگر نہیں ۔۔ اس کا نام تو ایمان ہے ۔۔ایمان جو روشنی ہے جو طاقت ہے وہ جو سیدھی راہ دکھاتا ہے ۔ اسکا نام بھی اسکے بابا نے رکھا تھا ۔ کیا میں ایمان سے روگردانی کروں۔۔۔؟؟ ایمان نے سوچا ۔۔۔ نہیں میں ایسا نہیں کروں گا۔۔ ایک طرف اسکی محبت تھی تو دوسری طرف اسکا خالق۔۔ ایک طرف مجاز تھا دوسرا حقیقت ۔۔ کس کو اختیار کروں ۔۔ دنیا تو دھوکہ ہے کیا دھوکے کو ۔۔؟ نہیں ۔۔ دھوکہ نہیں مگر میں دونوں کے بغیر نہیں رہ سکتی ۔۔
پھر خرم کا فون آرہا تھا۔۔ اس نے اٹھایا تو اس نے دھمکی دی اگر تم نہ آئ تو گھر آکر کے جاؤں گا۔۔ مگر اس نے اس کو سخت جواب دیا ایسا کہ اس نے خود سوچا نہیں ۔۔۔''تمہارے ساتھ چلنا اور ہم سفر بننا مجھے اچھا لگتا تھا مگر اب نہیں ایک محبت کرنے والا دوسرے محبت کرنے والے کی توہین نہیں کرسکتا۔۔ محبت حجاب میں پاک ہوتی ہے ۔۔ اس لئے ہمیں وہ ذات بھی نظر نہیں آتی ۔۔ مگر ہم اس سے محبت کرتے ہیں ۔۔ وہ ذاتِ باری تعالیٰ بھی حجاب میں اس کے بنائے ہوئے قاعدوں کی توہین کررہے ہو ۔۔ میں نے اپنی محبت آزاد کی ۔۔۔ ''
اور اسکے بعد سب ختم ہوگیا۔۔ ایمان کا ایمان رہ گیا اس کی محبت کھو گئ۔۔۔ اور اس نے اظہار شروع کر دیا اسے محبت ہے خرم سے ہر آنے والے ۔۔ ہر کسی سے پوچھا کرتی محبت کیسی ہوتی ہے ۔۔اس پر محبت کا حال آگیا۔۔ اور ذات ختم ہوگئ۔۔ سوچا کرتی رہتی اس نے محبت کی توہین نہیں کی تو پھر ایسا کیوں ہوا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاہور میں داتا صاحب کے مزار پر ایمان ہر ہفتے جایا کرتی تھی ۔۔ مگر ایک سال سے اس نے جانا چھوڑا ہوا تھا۔۔ پھر اس نے خود کو سنبھالا اور اپنی معمول کی روٹین شروع کر وی ۔۔آج وہ نانا جان کے ساتھ پھر داتا دربار جا رہی تھی ۔۔۔ جمعہ کا دن تھا قوالوں کا جھرمٹ تھا۔۔سب مست تھے ۔۔ اس نے اندر جا کر دعا کی نیاز بانٹنے لگی ۔۔ایک آواز آئی ۔۔۔۔یہ آواز جانی پہچانی تھی اور تمام تر توجہ مبذول کرگئی۔۔۔
'' نیاز بانٹ اور بانٹ اس نے تیرے ہاتھوں دلوانا ہے لکھا ہے۔۔۔کسی کو عشق تو کسی کو کھانہ ۔بس اب اور دیر نہ کرنا۔۔آتی رہنا۔۔اس ذات کو تیرا یہاں آنا پسند ہے۔۔ اس کو پسند ہے تیرا آنا ۔ آیا کر یہاں پہ۔۔۔ آج وہ خوش ہے ۔۔ حق ہو۔۔حق ہو۔۔۔
یہ خرم کی آواز تھی ۔۔ آج وہ جس بھیس میں تھا وہ تو شاید خود میں نہیں تھا۔ لگتا تھا کوئی اور ذات اس کے اندر سے بول رہی یا وہ شراب کے نشے سے چور ہے ۔۔۔۔ یہ عشقِ حقیقی کی شراب تھی ۔۔۔آج اسکو پتا چلا رب کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے ۔۔
اسکے بعد اس مجذوب کہ جسم پر لرزہ طارہ ہوگیا ۔ یوں لگا نور کی تجلی ہو رہی اور پھر روح آزاد ہوگئ۔۔۔
یہ دنیا ایک قیام کی جگہ ہے اصل ٹھکانہ تو موت کے بعد ہے ۔۔۔ جس کے بعد زندگی شروع ہوتی ہے ۔۔ اس پر کرم ہو گیا شاید ایمان کی محبت اور اللہ کی عطا کا۔۔ اسکو راہ دکھا دی ۔۔ وہ یو ں ہی عطا کرتا ہے دینے والوں کو ۔۔ کسی کو محب اور کسی کو محبوب بنا لیتا ہے