سید لبید غزنوی
محفلین
*کسی سے اپنی عقیدت کو ظاہر کرنے کےلیے ہمارے ہاں زیادہ تر لفظ عشق استعمال کیا جاتا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ لفظ ہماری محبت اور عقیدت کو بالکل صحیح انداز سے واضح کردیتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عشق اور محبت وعقیدت میں بہت فرق ہے۔*
آئیے اس فرق کو جاننے کےلیے مستند عربی لغات کی طرف چلتے ہیں تاکہ حق معلوم ہونے کے بعد ہم اپنی سابقہ غلطیوں سے رجوع کرکے صحیح بات کی طرف پلٹیں۔
*محبت کا معنی:*
امام اللغۃ مجد الدين فيروزآبادى اپنی کتاب القاموس المحیط میں تحریر فرماتے ہیں: «الحُبُّ: الوِدادُ، كالحِبابِ والحِبّ، بكسرهما، والمَحَبَّةِ والحُبابِ بالضم» ’حُبّ‘ کا مطلب ہے محبت۔ حِبابِ، الحِبّ، المَحَبَّةِ، الحُبابِکے بھی یہی معنی ہیں۔ جس سے محبت کی جائے، اسے محبوب کہتے ہیں۔
(القاموس المحیط ج: ا، ص: 70، ط: الرسالة, بيروت)
ابن منظور الإفريقى (المتوفى: 711ھ) اپنی کتاب لسان العرب میں رقم طراز ہیں: ’حُبّ‘ کا متضاد بغض ہے۔ حُبّ کے معنی پیار و محبت ہیں۔ حُبّ کو حِبّ بھی کہتے ہیں ۔ محبت کرنے والے کو مُحِبّ کہا جاتا ہے۔ جس سے محبت کی جائے، اسےمحبوب یا مُحَبّ کہتے ہیں۔
(لسان العرب ، ج: 1، ص: 289، ط: دار صادر – بيروت)
أبو نصر إسماعيل بن حماد الجوهري الفارابي (المتوفى: 393ھ) نے بھی اپنی کتاب الصحاح تاج اللغة وصحاح العربية میں ایسی ہی بات لکھی ہے۔
(الصحاح للجوہری، ج: 1، ص: 105، ط: دار العلم للملايين – بيروت)
امام راغب الأصفهانى اپنی کتاب المفردات في غريب القرآن میں محبت کی تعریف یوں کرتے ہیں: «المحبَّة: إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا» کسی چیز کو اچھا اور مفید سمجھ کر اس کا ارادہ کرنا، اسے چاہنا محبت ہے۔ (ج: 1، ص: 214، ط: دار القلم، الدار الشامية – دمشق بيروت)
*عشق کا مفہوم:
*آئیے اب لفظ عشق کا معنی و مطلب دیکھتے ہیں:
امام فیروز آبادی لکھتے ہیں: « عُجْبُ المُحِبِّ بمَحْبوبِه، أو إفْراطُ الحُبِّ، ويكونُ في عَفافٍ وفي دَعارةٍ، أو عَمَى الحِسِّ عن إدْراكِ عُيوبِهِ، أو مَرَضٌ وسْواسِيٌّ يَجْلُبُه إلى نَفْسِه بتَسْليطِ فِكْرِهِ على اسْتِحْسانِ بعضِ الصُّوَر۔»محب کا اپنے محبوب کو بہت زیادہ پسند کرنا، یا محبت میں غلو کرنا۔یہ محبت پاک بازی کی حدود میں بھی ہوسکتی ہے اور بدکاری میں بھی۔ یا پھر عشق کہتے ہیں: محبوب کے عیوب دیکھنے کی حس سے محروم ہوجانا۔ یا پھر عشق ایک مرض ہے جو عاشق کو خیالوں کی وادی میں دھکیل دیتا ہے کہ بعض صورتیں اس کو اچھی لگنے لگتی ہیں۔ (القاموس المحیط ، ج: 1، ص: 909)
لسان العرب میں تقریباً یہی مفہوم موجود ہے۔ (ج: 10، ص: 251)
اور یہی مفہوم امام جوہری کی الصحاح میں ہے۔ (ج: 4، ص: 1525)
امام ابن فارس اپنی کتاب مقاییس اللغۃ میں لکھتے ہیں: عشق محبت کی حدود کو پھلانگنے کا نام ہے۔(ج: 4، ص: 321، طبع: دار الفكر)
امام ابن ابی العز شرح عقیدہ طحاویہ میں فرماتے ہیں کہ عشق اس بڑھی ہوئی محبت کو کہتے ہیں جس میں عاشق کی ہلاکت کا خطرہ ہوتا ہے۔ مزید لکھتے ہیں کہ عشق ایسی محبت کو کہتے ہیں جس میں شہوت ہوتی ہے۔
*محبت اور عشق میں فرق:*
محبت اور عشق میں جو فرق ہے، اسے امام أبو هلال الحسن بن عبد الله بن سهل بن سعيد بن يحيى بن مهران العسكري (المتوفى: قریباً 395ھ) یوں بیان کرتے ہیں:
ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ عشق کہتے ہیں معشوق سے اپنی مراد ومطلوب حاصل کرنے کی خواہش۔ اسی لیے اچھا کھانے کی چاہت کو عشق سے تعبیر نہیں کیا جاتا ۔
اسی طرح عشق اس خواہش کو بھی کہا جاتا ہے جو حد سے بڑھ جائے اور عاشق اگر اسے پورا نہ کرسکے تو وہ خواہش اسے مار ڈالتی ہے۔
(الفروق اللغویۃ ، ج: 1، ص: 122، ط: دار العلم والثقافة القاهرة)*
*قرآن وحدیث میں عقیدت و الفت کو ظاہر کرنے لفظ محبت ہی استعمال ہوا ہے۔ لفظ عشق کا استعمال ہمیں کہیں نظر نہیں آتا۔ عزیز مصر کی بیوی کو یوسف علیہ السلام سے جو تعلق پیدا ہوگیا تھا، وہ تو ہر لحاظ سے عشق ہی تھا، لیکن قرآن مجید میں اس موقع پر بھی عشق کا لفظ لانے کی بجائے ’ قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا ‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اور رسولﷺ اس لفظ کے استعمال سے کس قدر پرہیز کرنے والے ہیں۔*
*مُحِبّ رسولﷺ یا عاشق رسولﷺ؟*
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر مؤمن ومسلمان کو سب سے زیادہ اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت ہونی چاہیے جیسا کہ قرآن کی آیات اور احادیث اس کی وضاحت کرتی ہیں۔
مثال کے طور پر محبت الہٰی کے بارے میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
‹وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلہِ› [البقرۃ: 165]
ایمان والے اللہ سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں۔
اور محبت رسولﷺ کے بارے میں پیارے پیغمبر جناب محمد رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:
«لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ» (صحیح البخاري: 15)
تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کے والد، اولاد اور تمام لوگوں سےزیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ ایک روایت میں نبی کریمﷺ نے یہ بات قسم اٹھا کر بھی فرمائی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس شدید اور سب سے زیادہ محبت کو ظاہر کرنے کےلیے لفظ عشق کا استعمال صحیح ہے؟ تو اس کا صاف، سیدھا ، واضح اور دو ٹوک جواب یہی ہے کہ نہیں۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ مثلاً:
1 لفظ عشق کا معنی اور مفہوم اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ رسول اللہﷺ سے محبت کے اظہار کےلیے استعمال کیا جائے کیونکہ عشق میں جو محبت ہوتی ہے، وہ شہوت سے پُر ہوتی ہے۔
2. ہر شخص یہ بات کہتا ہے کہ مجھے اپنے اہل خانہ سے محبت ہے۔ مجھے اپنے والدین سے محبت ہے۔ مجھے اپنی بہنوں سے محبت ہے۔ کیا کوئی شخص اس بات کو زبان پر لا سکتا ہے کہ میں اپنی والدہ یا بہن یا بیٹی کا عاشق ہوں؟ اگر نہیں تو کیا اللہ اور نبیﷺ کی ذات مبارکہ ہی ہے کہ بےتکلف لوگ اپنے آپ کو عشق الہٰی میں غرق اور عاشق رسول کہلوانے میں فخر
محسوس کرتے ہیں؟
الله تعالیٰ ہمیں قرآن وحدیث پر چلنے اور سیرت کے اصل پیغام کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین
من ۔۔۔فیس بک ۔۔۔۔
آئیے اس فرق کو جاننے کےلیے مستند عربی لغات کی طرف چلتے ہیں تاکہ حق معلوم ہونے کے بعد ہم اپنی سابقہ غلطیوں سے رجوع کرکے صحیح بات کی طرف پلٹیں۔
*محبت کا معنی:*
امام اللغۃ مجد الدين فيروزآبادى اپنی کتاب القاموس المحیط میں تحریر فرماتے ہیں: «الحُبُّ: الوِدادُ، كالحِبابِ والحِبّ، بكسرهما، والمَحَبَّةِ والحُبابِ بالضم» ’حُبّ‘ کا مطلب ہے محبت۔ حِبابِ، الحِبّ، المَحَبَّةِ، الحُبابِکے بھی یہی معنی ہیں۔ جس سے محبت کی جائے، اسے محبوب کہتے ہیں۔
(القاموس المحیط ج: ا، ص: 70، ط: الرسالة, بيروت)
ابن منظور الإفريقى (المتوفى: 711ھ) اپنی کتاب لسان العرب میں رقم طراز ہیں: ’حُبّ‘ کا متضاد بغض ہے۔ حُبّ کے معنی پیار و محبت ہیں۔ حُبّ کو حِبّ بھی کہتے ہیں ۔ محبت کرنے والے کو مُحِبّ کہا جاتا ہے۔ جس سے محبت کی جائے، اسےمحبوب یا مُحَبّ کہتے ہیں۔
(لسان العرب ، ج: 1، ص: 289، ط: دار صادر – بيروت)
أبو نصر إسماعيل بن حماد الجوهري الفارابي (المتوفى: 393ھ) نے بھی اپنی کتاب الصحاح تاج اللغة وصحاح العربية میں ایسی ہی بات لکھی ہے۔
(الصحاح للجوہری، ج: 1، ص: 105، ط: دار العلم للملايين – بيروت)
امام راغب الأصفهانى اپنی کتاب المفردات في غريب القرآن میں محبت کی تعریف یوں کرتے ہیں: «المحبَّة: إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا» کسی چیز کو اچھا اور مفید سمجھ کر اس کا ارادہ کرنا، اسے چاہنا محبت ہے۔ (ج: 1، ص: 214، ط: دار القلم، الدار الشامية – دمشق بيروت)
*عشق کا مفہوم:
*آئیے اب لفظ عشق کا معنی و مطلب دیکھتے ہیں:
امام فیروز آبادی لکھتے ہیں: « عُجْبُ المُحِبِّ بمَحْبوبِه، أو إفْراطُ الحُبِّ، ويكونُ في عَفافٍ وفي دَعارةٍ، أو عَمَى الحِسِّ عن إدْراكِ عُيوبِهِ، أو مَرَضٌ وسْواسِيٌّ يَجْلُبُه إلى نَفْسِه بتَسْليطِ فِكْرِهِ على اسْتِحْسانِ بعضِ الصُّوَر۔»محب کا اپنے محبوب کو بہت زیادہ پسند کرنا، یا محبت میں غلو کرنا۔یہ محبت پاک بازی کی حدود میں بھی ہوسکتی ہے اور بدکاری میں بھی۔ یا پھر عشق کہتے ہیں: محبوب کے عیوب دیکھنے کی حس سے محروم ہوجانا۔ یا پھر عشق ایک مرض ہے جو عاشق کو خیالوں کی وادی میں دھکیل دیتا ہے کہ بعض صورتیں اس کو اچھی لگنے لگتی ہیں۔ (القاموس المحیط ، ج: 1، ص: 909)
لسان العرب میں تقریباً یہی مفہوم موجود ہے۔ (ج: 10، ص: 251)
اور یہی مفہوم امام جوہری کی الصحاح میں ہے۔ (ج: 4، ص: 1525)
امام ابن فارس اپنی کتاب مقاییس اللغۃ میں لکھتے ہیں: عشق محبت کی حدود کو پھلانگنے کا نام ہے۔(ج: 4، ص: 321، طبع: دار الفكر)
امام ابن ابی العز شرح عقیدہ طحاویہ میں فرماتے ہیں کہ عشق اس بڑھی ہوئی محبت کو کہتے ہیں جس میں عاشق کی ہلاکت کا خطرہ ہوتا ہے۔ مزید لکھتے ہیں کہ عشق ایسی محبت کو کہتے ہیں جس میں شہوت ہوتی ہے۔
*محبت اور عشق میں فرق:*
محبت اور عشق میں جو فرق ہے، اسے امام أبو هلال الحسن بن عبد الله بن سهل بن سعيد بن يحيى بن مهران العسكري (المتوفى: قریباً 395ھ) یوں بیان کرتے ہیں:
ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ عشق کہتے ہیں معشوق سے اپنی مراد ومطلوب حاصل کرنے کی خواہش۔ اسی لیے اچھا کھانے کی چاہت کو عشق سے تعبیر نہیں کیا جاتا ۔
اسی طرح عشق اس خواہش کو بھی کہا جاتا ہے جو حد سے بڑھ جائے اور عاشق اگر اسے پورا نہ کرسکے تو وہ خواہش اسے مار ڈالتی ہے۔
(الفروق اللغویۃ ، ج: 1، ص: 122، ط: دار العلم والثقافة القاهرة)*
*قرآن وحدیث میں عقیدت و الفت کو ظاہر کرنے لفظ محبت ہی استعمال ہوا ہے۔ لفظ عشق کا استعمال ہمیں کہیں نظر نہیں آتا۔ عزیز مصر کی بیوی کو یوسف علیہ السلام سے جو تعلق پیدا ہوگیا تھا، وہ تو ہر لحاظ سے عشق ہی تھا، لیکن قرآن مجید میں اس موقع پر بھی عشق کا لفظ لانے کی بجائے ’ قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا ‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اور رسولﷺ اس لفظ کے استعمال سے کس قدر پرہیز کرنے والے ہیں۔*
*مُحِبّ رسولﷺ یا عاشق رسولﷺ؟*
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر مؤمن ومسلمان کو سب سے زیادہ اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت ہونی چاہیے جیسا کہ قرآن کی آیات اور احادیث اس کی وضاحت کرتی ہیں۔
مثال کے طور پر محبت الہٰی کے بارے میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
‹وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلہِ› [البقرۃ: 165]
ایمان والے اللہ سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں۔
اور محبت رسولﷺ کے بارے میں پیارے پیغمبر جناب محمد رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:
«لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ» (صحیح البخاري: 15)
تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کے والد، اولاد اور تمام لوگوں سےزیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ ایک روایت میں نبی کریمﷺ نے یہ بات قسم اٹھا کر بھی فرمائی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس شدید اور سب سے زیادہ محبت کو ظاہر کرنے کےلیے لفظ عشق کا استعمال صحیح ہے؟ تو اس کا صاف، سیدھا ، واضح اور دو ٹوک جواب یہی ہے کہ نہیں۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ مثلاً:
1 لفظ عشق کا معنی اور مفہوم اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ رسول اللہﷺ سے محبت کے اظہار کےلیے استعمال کیا جائے کیونکہ عشق میں جو محبت ہوتی ہے، وہ شہوت سے پُر ہوتی ہے۔
2. ہر شخص یہ بات کہتا ہے کہ مجھے اپنے اہل خانہ سے محبت ہے۔ مجھے اپنے والدین سے محبت ہے۔ مجھے اپنی بہنوں سے محبت ہے۔ کیا کوئی شخص اس بات کو زبان پر لا سکتا ہے کہ میں اپنی والدہ یا بہن یا بیٹی کا عاشق ہوں؟ اگر نہیں تو کیا اللہ اور نبیﷺ کی ذات مبارکہ ہی ہے کہ بےتکلف لوگ اپنے آپ کو عشق الہٰی میں غرق اور عاشق رسول کہلوانے میں فخر
محسوس کرتے ہیں؟
الله تعالیٰ ہمیں قرآن وحدیث پر چلنے اور سیرت کے اصل پیغام کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین
من ۔۔۔فیس بک ۔۔۔۔