محبت اپنا شوقِ نارسا تھی

صابرہ امین

لائبریرین
محترم اساتذہ الف عین ، ظہیراحمدظہیر محمّد احسن سمیع :راحل: محمد خلیل الرحمٰن ، یاسر شاہ ، سید عاطف علی

السلام علیکم،
آپ سب کی خدمت میں ایک غزل حاضر ہے ۔ آپ سے اصلاح کی درخواست ہے۔

محبت اپنا شوقِ نارسا تھی
یہی بربادیوں کی ابتدا تھی

محبت تھی کرامت یا کرشمہ
ہماری زندگی کا فلسفہ تھی

سجھائی کچھ نہیں دیتا تھا ہم کو
یہی منزل، یہی بس راستہ تھی

محبت بن گئی تھا اپنا مسلک
یہی قانون تھی اور قائدہ تھی

محبت قیمتی تھی دوجہاں سے
ہوئی جب ختم تو رنج و بلا تھی

ہوئے گھائل سراسر اس کے ہاتھوں
محبت تھی یا کوئی حادثہ تھی

ہوئے ہم ماورا ہر ایک دکھ سے
محبت دردِ دل کی انتہا تھی

تھی کل عالم ہمارا یہ محبت
تمہارے واسطے بس مشغلہ تھی

تمہیں بھی ہو گئی ہم سے محبت
کڑی کتنی تمہاری یہ سزا تھی!
 
ہوئے گھائل سراسر اس کے ہاتھوں
محبت تھی یا کوئی حادثہ تھی
مجھے یہاں حادثہ تھی ٹھیک نہیں لگ رہا، کیونکہ حادثہ کی ضمیر کا اتصال محبت کے ساتھ نہیں ہو رہا.
محبت بن گئی تھا اپنا مسلک
یہی قانون تھی اور قائدہ تھی
قاعدہ*

سجھائی کچھ نہیں دیتا تھا ہم کو
یہی منزل، یہی بس راستہ تھی
یہ شعر اگر مفرد پڑھا جائے تو کچھ اندازہ نہیں ہوتا کہ کس چیز کاذکر ہو رہا ہے...


ہوئے ہم ماورا ہر ایک دکھ سے
محبت دردِ دل کی انتہا تھی
میرے خیال میں اگر پہلے مصرعے میں دکھ کے بجائے الم کہیں تو درد دل سے ربط بہتر ہو جائے گا.
 

الف عین

لائبریرین
مزید یہ کہ
یہی قانون تھی اور قاعدہ تھی
دونوں جگہ' تھی' کچھ نا گوار لگ رہا ہے، کچھ سوچو اس کا بھی، درمیان میں 'اَر' بھی کچھ مناسب نہیں
 

صابرہ امین

لائبریرین
مجھے یہاں حادثہ تھی ٹھیک نہیں لگ رہا، کیونکہ حادثہ کی ضمیر کا اتصال محبت کے ساتھ نہیں ہو رہا.

قاعدہ*


یہ شعر اگر مفرد پڑھا جائے تو کچھ اندازہ نہیں ہوتا کہ کس چیز کاذکر ہو رہا ہے...



میرے خیال میں اگر پہلے مصرعے میں دکھ کے بجائے الم کہیں تو درد دل سے ربط بہتر ہو جائے گا.
محمّد احسن سمیع :راحل: بھائی شکریہ۔ اصلاح کر کے حاضر ہوتی ہوں۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
استاد محترم الف عین، محمّد احسن سمیع :راحل:

ہوئے گھائل سراسر اس کے ہاتھوں
محبت تھی یا کوئی حادثہ تھی
مجھے یہاں حادثہ تھی ٹھیک نہیں لگ رہا، کیونکہ حادثہ کی ضمیر کا اتصال محبت کے ساتھ نہیں ہو رہا.

ہوئے گھائل سراسر اس کے ہاتھوں
محبت اک عجب سا حادثہ تھی


جی بہتر

یہ شعر اگر مفرد پڑھا جائے تو کچھ اندازہ نہیں ہوتا کہ کس چیز کاذکر ہو رہا ہے...
محبت بن گئی تھی اپنا محور
یہی منزل، یہی بس راستہ تھی

میرے خیال میں اگر پہلے مصرعے میں دکھ کے بجائے الم کہیں تو درد دل سے ربط بہتر ہو جائے گا.
ہوئے ہم ماورا ہر اک الم سے
محبت دردِ دل کی انتہا تھی

محبت بن گئی تھا اپنا مسلک
یہی قانون تھی اور قائدہ تھی
محبت بن گئی تھی اپنا مسلک
یہی بس ضابطہ و قاعدہ تھی
یا
یہ اک ایسا انوکھا ضابطہ تھی
 

اشرف علی

محفلین
محترم اساتذہ الف عین ، ظہیراحمدظہیر محمّد احسن سمیع :راحل: محمد خلیل الرحمٰن ، یاسر شاہ ، سید عاطف علی

السلام علیکم،
آپ سب کی خدمت میں ایک غزل حاضر ہے ۔ آپ سے اصلاح کی درخواست ہے۔

محبت اپنا شوقِ نارسا تھی
یہی بربادیوں کی ابتدا تھی

محبت تھی کرامت یا کرشمہ
ہماری زندگی کا فلسفہ تھی

سجھائی کچھ نہیں دیتا تھا ہم کو
یہی منزل، یہی بس راستہ تھی

محبت بن گئی تھا اپنا مسلک
یہی قانون تھی اور قائدہ تھی

محبت قیمتی تھی دوجہاں سے
ہوئی جب ختم تو رنج و بلا تھی

ہوئے گھائل سراسر اس کے ہاتھوں
محبت تھی یا کوئی حادثہ تھی

ہوئے ہم ماورا ہر ایک دکھ سے
محبت دردِ دل کی انتہا تھی

تھی کل عالم ہمارا یہ محبت
تمہارے واسطے بس مشغلہ تھی

تمہیں بھی ہو گئی ہم سے محبت
کڑی کتنی تمہاری یہ سزا تھی!
و علیکم السلام و رحمتہ اللّٰہ و برکاتہ

خوووووب اسسسسست !
 

الف عین

لائبریرین
درست ہو گئی ہے غزل
یہی بس ضابطہ و قاعدہ تھی
یا
یہ اک ایسا انوکھا ضابطہ تھی
.. یہ اپنی ذات میں اک قاعدہ/ضابطہ تھی
یہ کیسا رہے گا؟
 

صابرہ امین

لائبریرین
استاد محترم الف عین ، آپ سے ایک نظر ثانی کی درخواست ہے۔


محبت اپنا شوقِ نارسا تھی
یہی بربادیوں کی ابتدا تھی

محبت تھی کرامت یا کرشمہ
ہماری زندگی کا فلسفہ تھی

محبت ہی تھی گویا اپنا محور ( نیچے کے شعر کے الفاظ کی تکرار سے بچنے کی لیے معمولی تبدیلی کی ہے)
یہی منزل، یہی بس راستہ تھی

محبت بن گئی تھی اپنا مسلک
یہ اپنی ذات میں اک ضابطہ تھی

محبت قیمتی تھی دوجہاں سے
ہوئی جب ختم تو رنج و بلا تھی

ہمیں گھائل کیا اس نے سراسر (ذرا سی تبدیلی یہاں ابھی کی ہے)
محبت اک عجب سا حادثہ تھی

ہوئے ہم ماورا ہر اک الم سے
محبت دردِ دل کی انتہا تھی

تھی کل عالم ہمارا یہ محبت
تمہارے واسطے بس مشغلہ تھی

تمہیں بھی ہو گئی ہم سے محبت
کڑی کتنی تمہاری یہ سزا تھی!
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
استاد محترم الف عین ، آپ سے ایک نظر ثانی کی درخواست ہے۔


محبت اپنا شوقِ نارسا تھی
یہی بربادیوں کی ابتدا تھی

محبت تھی کرامت یا کرشمہ
ہماری زندگی کا فلسفہ تھی

محبت ہی تھی گویا اپنا محور ( نیچے کے شعر کے الفاظ کی تکرار سے بچنے کی لیے معمولی تبدیلی کی ہے)
یہی منزل، یہی بس راستہ تھی

محبت بن گئی تھی اپنا مسلک
یہ اپنی ذات میں اک ضابطہ تھی

محبت قیمتی تھی دوجہاں سے
ہوئی جب ختم تو رنج و بلا تھی

ہمیں گھائل کیا اس نے سراسر (ذرا سی تبدیلی یہاں ابھی کی ہے)
محبت اک عجب سا حادثہ تھی

ہوئے ہم ماورا ہر اک الم سے
محبت دردِ دل کی انتہا تھی

تھی کل عالم ہمارا یہ محبت
تمہارے واسطے بس مشغلہ تھی

تمہیں بھی ہو گئی ہم سے محبت
کڑی کتنی تمہاری یہ سزا تھی!
درست ہو گئی ہے غزل
 

محمداحمد

لائبریرین
محبت اپنا شوقِ نارسا تھی
یہی بربادیوں کی ابتدا تھی

محبت بن گئی تھی اپنا مسلک
یہ اپنی ذات میں اک ضابطہ تھی

تمہیں بھی ہو گئی ہم سے محبت
کڑی کتنی تمہاری یہ سزا تھی!

بہت خوب!

اچھی غزل ہے۔
 
Top