تمہیں کیسے بتائیں ہم
محبت اور کہانی میں کوئی رشتہ نہیں ہوتا
کہانی میں
تو ہم واپس بھی آتے ہیں
محبت میں پلٹنے کا کوئی رستہ نہیں ہوتا
ذرا سوچو!
کہیں دل میں خراشیں ڈالتی یادوں کی سفاکی
کہیں دامن سے لپٹی ہے کسی بھولی ہوئی
ساعت کی نم ناکی
کہیں آنکھوں کے خیموں میں
خراغِ خواب گل کرنے کی سازش کو
ہوادیتی ہوئی راتوں کی چالاکی
مگر میں بندہ خاکی
نہ جانے کتنے فرعونوں سے اُلجھی ہے
مرے لہجے کی بے باکی
مجھے دیکھو
مرے چہرے پہ کتنے موسوں کی گرد
اور اس گرد کی تہہ میں
سمے ی دھوپ میں رکھا اک آئینہ
اور آئینے میں تاحد نظر پھیلے
محبت کے ستارے عکس بن کر جھلملاتے ہیں
نئی دنیاؤں کا رستہ بتاتے ہیں
اسی منظر میں آئینے سے الجھی کچھ لکیریں ہیں
لکیروں میں کہانی ہے
کہانی اور محبت میں ازل سے جنگ جاری ہے
محبت میں اک ایسا موڑ آتا ہے
جہاں آکر کہانی ہار جاتی ہے
کہانی میں کچھ کردار ہم خود فرض کرتے ہیں
محبت میں کوئی کردار بھی فرضی نہیں ہوتا
کہانی میں کئی کردار
زندہ ہی نہیں رہتے
محبت اپنے کرداروں کو مرنے ہی نہیں دیتی
کہانی کے سفر میں
منظروں کی دھول اڑتی ہے
محبت کی مسافر راہ گیروں کو بکھرنے ہی نہیں دیتی
محبت اک شجر ہے
اور شجر کو اس سے کیا مطلب
کہ اس کے سائے میں جو بھی تھکا ہارا مسافر آکے بیٹھا ہے
اب اس کی نسل کیا ہے دنگ کیسا ہے
کہاں سے آیا ہے
کس سمت جانا ہے
شجر کا کام تو بس چھاؤں دینا ہے
دھوپ سہنا ہے
اسے اس سے غرض کیا ہے
پڑاؤ ڈالنے والوں میں کس نے
چھاؤں کی تقسیم کا جھگڑا اُٹھا یا ہے
کہاں کس عہد کو توڑا کہاں وعدہ نبھایا ہے
مگر ہم جانتے ہیں
چھاؤں جب تقسیم ہوجائے
تو اکثر دھوپ کے نیزے
رگ و پے میں اترتے ہیں
اور اس کے زخم خوردہ لوگ
جیتے ہیں نہ مرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
سلیم کوثر
محبت اور کہانی میں کوئی رشتہ نہیں ہوتا
کہانی میں
تو ہم واپس بھی آتے ہیں
محبت میں پلٹنے کا کوئی رستہ نہیں ہوتا
ذرا سوچو!
کہیں دل میں خراشیں ڈالتی یادوں کی سفاکی
کہیں دامن سے لپٹی ہے کسی بھولی ہوئی
ساعت کی نم ناکی
کہیں آنکھوں کے خیموں میں
خراغِ خواب گل کرنے کی سازش کو
ہوادیتی ہوئی راتوں کی چالاکی
مگر میں بندہ خاکی
نہ جانے کتنے فرعونوں سے اُلجھی ہے
مرے لہجے کی بے باکی
مجھے دیکھو
مرے چہرے پہ کتنے موسوں کی گرد
اور اس گرد کی تہہ میں
سمے ی دھوپ میں رکھا اک آئینہ
اور آئینے میں تاحد نظر پھیلے
محبت کے ستارے عکس بن کر جھلملاتے ہیں
نئی دنیاؤں کا رستہ بتاتے ہیں
اسی منظر میں آئینے سے الجھی کچھ لکیریں ہیں
لکیروں میں کہانی ہے
کہانی اور محبت میں ازل سے جنگ جاری ہے
محبت میں اک ایسا موڑ آتا ہے
جہاں آکر کہانی ہار جاتی ہے
کہانی میں کچھ کردار ہم خود فرض کرتے ہیں
محبت میں کوئی کردار بھی فرضی نہیں ہوتا
کہانی میں کئی کردار
زندہ ہی نہیں رہتے
محبت اپنے کرداروں کو مرنے ہی نہیں دیتی
کہانی کے سفر میں
منظروں کی دھول اڑتی ہے
محبت کی مسافر راہ گیروں کو بکھرنے ہی نہیں دیتی
محبت اک شجر ہے
اور شجر کو اس سے کیا مطلب
کہ اس کے سائے میں جو بھی تھکا ہارا مسافر آکے بیٹھا ہے
اب اس کی نسل کیا ہے دنگ کیسا ہے
کہاں سے آیا ہے
کس سمت جانا ہے
شجر کا کام تو بس چھاؤں دینا ہے
دھوپ سہنا ہے
اسے اس سے غرض کیا ہے
پڑاؤ ڈالنے والوں میں کس نے
چھاؤں کی تقسیم کا جھگڑا اُٹھا یا ہے
کہاں کس عہد کو توڑا کہاں وعدہ نبھایا ہے
مگر ہم جانتے ہیں
چھاؤں جب تقسیم ہوجائے
تو اکثر دھوپ کے نیزے
رگ و پے میں اترتے ہیں
اور اس کے زخم خوردہ لوگ
جیتے ہیں نہ مرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
سلیم کوثر