محبت تھی یا رقابت


جو غیر تھے وہ اسی بات پر ہمارے ہوئے
کہ ہم سے دوست بہت بے خبر ہمارے ہوئے
کسے خبر وہ محبت تھی یا رقابت تھی
بہت سے لوگ تجھے دیکھ کر ہمارے ہوئے
اب اِک ہجومِ شکستہ دلاں ہے ساتھ اپنے
جنہیں کوئی نہ ملا ہم سفر ہمارے ہوئے
کسی نے غم تو کسی نے مزاجِ غم بخشا
سب اپنی اپنی جگہ چارہ گر ہمارے ہوئے
بجھا کے طاق کی شمعیں نہ دیکھ تاروں کو
اسی جنوں میں تو برباد گھر ہمارے ہوئے
وہ اعتماد کہاں سے فرازؔ لائیں گے
کسی کو چھوڑ کر وہ اب اگر ہمارے ہوئے
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت اچھی غزل انتخاب کی ہے حسن صاحب آپ نے۔

لیکن اس کے لئے زمرہ درست نہیں چنا۔ اسے پسندیدہ کلام میں پوسٹ ہونا چاہیے تھا۔
 
Top