کاشفی
محفلین
محبت
سانیٹ
(ضیا فتح آبادی)
محبت لفظ تو سادہ سا ہے لیکن ضیا! اس میں
سمٹ آئی ہیں سب رنگینیاں گلزارِ ہستی کی
بیاں الفاظ میں اس کو کرے یہ تاب ہے کس میں
کہ یہ اک آخری منزل ہے راہِ کیف و مستی کی
--------------------------
محبت سے ہے وابستہ ترقی روحِ انساں کی
یہ رازِ عالمِ ایجاد سے آگاہ کرتی ہے
یہی تنظیم کرتی ہے خیالاتِ پریشاں کی
دلوں کو بے نیاز حسنِ مہروماہ کرتی ہے
-------------------------
رواں ہیں میری رگ رگ میں محبت کی حسیں لہریں
میں ہر تارِ نفس سے راگنی الفت کی سُنتا ہوں
تماشا حسن کا کرتا ہوں جب آئینہء دل میں
محبت کی شباب آگینیوں پر سر میں دُھنتا ہوں
محبت کیلئے حاضر مرا دل ہے، مری جاں ہے
محبت میرا مذہب ہے، محبت میرا ایماں ہے