غزل
محبت کا کسی کی آج کل دعوی بھی کیا کرنا
کہ اپنے تک ہی رکھا جائے دنیا میں بھلا کرنا
اب اپنی کہنے والے ہیں کہ دن وہ جا چکے کب کے
کہ خاموشی سے بیٹھے آپ کی باتیں سنا کرنا
فضائیں کھول دی ہیں میری خاطر آسماں نے سب
یہ کہنا ہے کہ جب چاہے جہاں چاہے اڑا کرنا
کہاں ہے وہ کہ ہم سے ہو نہ پائے گا یہی برداشت
کسی انسان کو بھی بات سے اپنی خفا کرنا
جو اس کے در سے لے جائے اٹھا کر اور ہی در پر
لگا دو آگ ایسی آگہی کو رکھ کے کیا کرنا
میں اس کی آرزو لے کر چلا ہوں راستو سن لو
ملے منزل مجھے یہ واسطے میرے دعا کرنا
ہے کیا جائیں جہاں اس قید خانے کے علاوہ بھی
کہاں کام آئے گا اپنے ہمیں اس کا رہا کرنا
وہ مانیں یا نہ مانیں یہ تو ان کی اپنی مرضی ہے
ہمارا کام ہے بس زندگی بھر التجا کرنا
عظیم اس کو جو ہو مقصود آخر کر گزرتا ہے
نہ ہونا تھا ہمارا کچھ نہ ہے اپنا ہوا کرنا
*****