محبت کبھی امر نہیں ہوتی ۔ ایک مکمل افسانہ ۔ از شاہد بھائی

شاہد بھائی

محفلین
محبت کبھی امر نہیں ہوتی
رومانوی افسانہ
مصنف شاہد بھائی
ثاقب ایک نہایت کام چور اور کاہل طبیعت کا مالک تھا۔ ایک کام کرنے میں دس گھنٹے لگانا اس کی عادت تھی۔ بس سارا دن دوستوں یاروں میں بیٹھا رہتا ۔ اگر اس کے بہن بھائی اسے کسی کام کا بول دیتے تو ان کی بات سنے بغیر صاف صاف انکار کر دیتا تھا۔ اس کی عمر لگ بھگ 23 سال تھی ۔دوسری طرف ایک گھرانے میں اس ثاقب کی عمر کا ہی لڑکا احسن رہتا تھا۔ جو اس سے بالکل برعکس تھا۔ احسن ہر کسی کے کام آتا۔ چاہے جس کے کام آرہا ہے اس شخص کو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔ احسن پکا مسلمان اور پانچ وقت کا نمازی بھی تھا۔ احسن کی دو بہنیں تھیں لیکن دونوں بہنوں کی شادیاں ہوچکی تھیں۔ اب اس کے گھر میں صرف اس کا ایک بڑا بھائی اور اس کے بوڑھے والدین رہتے تھے۔ جہاں ثاقب کام چور اور کاہل تھا وہیں احسن چست اور ہوشیار تھا۔ دونوں میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ ثاقب اور احسن دونوں میں ایک عادت ایسی تھی جو مشترکہ تھی یعنی جو عادت احسن اور ثاقب دونوں میں پائی جاتی تھی اور عادت تھی ڈرامے دیکھنا۔ دونوں بڑے شوق سے ہندوستانی ڈرامے دیکھتے تھے۔ ایک دن دونوں ٹی وی چینل چیک کررہے تھے کہ دیکھیں کوئی اچھا ڈرامہ آرہا ہے یا نہیں کہ اچانک ان دونوں کا ہاتھ ایک چینل پر رک گیا ۔ ہاتھ رکنے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ اس چینل پر کوئی اچھا ڈرامہ آرہا تھا بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس چینل پر ایک بہت ہی خوبصورت اور حسین لڑکی کھڑی تھی جو ایک پروگرام کی میزبانی کررہی تھی۔ دونوں اس حسین چہرے میں کھو گئے ۔ احسن اسے پیار بھری نظروں سے دیکھنے لگا لیکن ٹھیک اس وقت اس کا بڑا بھائی نذیر کمرے میں داخل ہوگیا اور اسے بڑے بھائی کے خوف سے چینل چینج کرنا پڑا لیکن رات گئے تک احسن اور ثاقب دونوں کے ذہنوں میں بس وہی لڑکی چھائی رہی۔ لڑکی اتنی خوبصورت اور پیاری تھی کہ دونوں اس کے معصوم چہرے میں کھو سے گئے تھے۔ صبح جب دونوں کی آنکھ کھلی تو انھیں لگا جیسے وہی لڑکی انہیں جگا رہی ہو۔ بس اب دونوں کے دل میں یہی تمنا تھی کہ وہ لڑکی اس کی ہو جائے ۔ وہ لڑکی کو اپنا بنا لے۔ اس سے شادی کر لے۔ دونوں انٹرنیٹ میں اس لڑکی کا نام نکالنے کی کوشش کرنے لگے۔آخر وہ کامیاب ہو ہی گئے ۔ اس لڑکی کا نام پری تھا۔ واقعی پری کے والدین نے اس کا نام بالکل صحیح رکھا تھا کیونکہ وہ خوبصورتی میں کسی پری سے کم نہیں تھی لیکن مشکل یہ تھی کہ پڑی ہندوستان میں رہتی تھی جبکہ وہ دونوں پاکستان میں رہتے تھے ۔ آخر دونوں نے پری سے ملنے کے لیے ہندوستان جانے کا فیصلہ کیا لیکن وہ اس بات کا ذکر اپنے والدین سے نہیں کر سکتے تھے ۔ اِس وجہ سے انھوں نے ایک دن چھپ کر اپنا سامان باندھا اور ہندوستان کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ ٹکٹ اور پاسپورٹ تو انھوں نے پہلی ہی لے لیا تھا۔ آخر کار دونوں ہندوستان پہنچ گئے ۔ انٹرنیٹ میں وہ دیکھ چکے تھے کہ پری ممبئی میں رہتی تھی اور ایک ادکارہ تھی۔ ہندوستانی ڈرامے میں کام کرتی تھی اور ان دنوں بھی ایک ڈرامے میں کام کر رہی تھی جس میں وہ ہیروئن کا کردار نبھا رہی تھی۔ پری کا انھوں نے مکمل پتا بھی انٹرنیٹ سے نکال لیا تھا۔ اس لیے وہ دونوں سیدھا اس کے گھر پہنچ گئے۔ گھر کے دروازے پر ثاقب اور احسن کا آمنا سامنا ہوا۔ دونوں ایک دوسرے سے ملے۔
" تو تمہارا نام احسن ہے " ثاقب کہہ رہا تھا۔
" جی " احسن نے صرف اتنا ہی کہا۔
" اور یہاں تم کس کام سے آئے ہو " ثاقب نے اسے گھورا۔
" یہ بات تو میں اپنے والدین کو بھی بتا کر نہیں آیا تو آپ کو کیسے بتا دوں " احسن نے منہ بنایا۔
" ویسے تمھیں ایک راز کی بات بتاؤں ۔۔۔۔ میں بھی اپنے والدین سے چھپ کر یہاں آیا ہوں " ثاقب مسکرا کر بولا اور پھر دونوں نے دروازے پر لگی گھنٹی کا بٹن دبا دیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک آدمی باہر نکلا ۔
" جی کون ہیں آپ ۔۔۔۔ اور کس سے ملنا ہے " اس آدمی نے سوال کیا۔
" پہلے تم بتاؤ ۔۔۔۔۔ تم کون ہو " ثاقب نے اسے تیز نظروں سے دیکھا۔
" میں اس گھر کا ملازم ہوں ۔۔۔۔ اب آپ بتائیں ۔۔۔۔کیا کام ہے آپ کو " ملازم بولا۔
" مجھے پری میم سے ملنا ہے " دونوں ایک ساتھ بولے اور پھر ایک دوسرے کی طرف حیرانی سے دیکھنے لگے۔ دونوں سمجھ گئے کہ وہ دونوں ایک ہی کام سے یہاں آئے ہیں یعنی پری سے ملنے۔
" ٹھیک ہے ۔۔۔ آپ دونوں اندر آجائیں " ملازم انھیں اندر لے آیا اور دونوں ڈرائنگ روم میں بیٹھے پری کا انتظار کرنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد ڈرائنگ روم میں پری داخل ہوئی اور وہ دونوں چونک اٹھے ۔ پھر وہ پری کو بس دیکھتے ہی رہ گئے ۔ پری کے چہرے میں کھو سے گئے ۔ اتنی خوبصورت ، اتنی حسین اور جمیل لڑکی انھوں نے آج تک نہیں دیکھی تھی۔ پری صوفے پر آکر بیٹھ گئی اور ان دونوں کا منہ تکنے لگی۔ دونوں کو جیسے احسان ہی نہیں ہوا کہ پری ان کے بولنے کا انتظار کر رہی ہے ۔ وہ دونوں تو بس اس کے چہرے کو اس کے بالوں کو اس کی آنکھوں کو دیکھنے لگے۔ پری کی آنکھیں ایسی جیسے کوئی موتی ، بال اتنے گھنے کہ اگر کوئی ان میں ڈوب جائے تو باہر آنا ناممکن تھا، ہونٹ جیسے غلاب کی پنکھریاں ، چہرے بے داغی۔ غرض اتنی خوبصورت کے اس کی خوبصورتی الفاظ میں بیاں کرنا ناممکن تھا۔
" آپ لوگوں لو مجھ سے کچھ کام تھا "ایک سریلی اور میٹھی آواز انکے کانوں سے ٹکرائی۔
" جج ۔۔۔۔ جی ہاں" احسن ہکلایا۔
" کیا کام ہے آپ کو مجھ سے " پری کی میٹھی آواز ایک بار پھر ان کے دونوں سے ٹکرائی۔
"مم ۔۔۔۔۔ مم۔۔۔۔۔میں آپ سے پیار ۔۔۔۔ " ثاقب نے اتنا ہی کہا تھا کہ سامنے سے ایک شخص ڈرائنگ روم میں داخل ہوگیا۔
" کون ہیں یہ پری " اس شخص نے آتے ہی سوال جڑ دیا۔
" پتا نہیں راجا ۔۔۔۔ یہ کون ہیں " پری نے لاعلمی کا اظہار کیا۔
" یہ آپ کے کون ہیں ؟ " ہمت کر کے احسن نے آنے والے شخص کے بارے میں پوچھا۔
" یہ میرے شوہر ہیں "۔
ان دونوں کا حیرت کا ایک زبردست جھٹکا لگا۔ دونوں کی آنکھوں میں آنسو اتر آئے ۔ یکا یک ان کو چکر آنے لگے اور یہ دنیا اجنبی لگنے لگی۔ اس ایک جملے نے ان کے اوپر قیامت ڈھا دی تھی۔ دونوں اسی وقت وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ پری اور اس کے شوہر راجا نے حیرت کا اظہار کیا لیکن انھیں روک نہ سکے ۔ ثاقب اور احسن اس وقت ایک دریا کے کنارے کھڑے تھے اور پانی کے بہاؤ کو خالی خالی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ اچانک نہ جانے ان کے دل میں کیا آئی دونوں نے ایک ساتھ پانی چھلانگ لگا دی اور پھر کچھ ہی وقت بعد وہ ڈوبنے لگے۔ مرتے وقت یہ الفاظ ان ے منہ سے نکلے۔
" عشق وہی سچا ہوتا ہے ۔۔۔۔ جس کو منزل نہیں ملتی "۔


٭٭٭٭٭
ختم شدہ
٭٭٭٭٭
 
آخری تدوین:

نسیم زہرہ

محفلین
محبت کبھی امر نہیں ہوتی
رومانوی افسانہ
مصنف شاہد بھائی
ثاقب ایک نہایت کام چور اور کاہل طبیعت کا مالک تھا۔ ایک کام کرنے میں دس گھنٹے لگانا اس کی عادت تھی۔ بس سارا دن دوستوں یاروں میں بیٹھا رہتا ۔ اگر اس کے بہن بھائی اسے کسی کام کا بول دیتے تو ان کی بات سنے بغیر صاف صاف انکار کر دیتا تھا۔ اس کی عمر لگ بھگ 23 سال تھی ۔دوسری طرف ایک گھرانے میں اس ثاقب کی عمر کا ہی لڑکا احسن رہتا تھا۔ جو اس سے بالکل برعکس تھا۔ احسن ہر کسی کے کام آتا۔ چاہے جس کے کام آرہا ہے اس شخص کو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔ احسن پکا مسلمان اور پانچ وقت کا نمازی بھی تھا۔ احسن کی دو بہنیں تھیں لیکن دونوں بہنوں کی شادیاں ہوچکی تھیں۔ اب اس کے گھر میں صرف اس کا ایک بڑا بھائی اور اس کے بوڑھے والدین رہتے تھے۔ جہاں ثاقب کام چور اور کاہل تھا وہیں احسن چست اور ہوشیار تھا۔ دونوں میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ ثاقب اور احسن دونوں میں ایک عادت ایسی تھی جو مشترکہ تھی یعنی جو عادت احسن اور ثاقب دونوں میں پائی جاتی تھی اور عادت تھی ڈرامے دیکھنا۔ دونوں بڑے شوق سے ہندوستانی ڈرامے دیکھتے تھے۔ ایک دن دونوں ٹی وی چینل چیک کررہے تھے کہ دیکھیں کوئی اچھا ڈرامہ آرہا ہے یا نہیں کہ اچانک ان دونوں کا ہاتھ ایک چینل پر رک گیا ۔ ہاتھ رکنے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ اس چینل پر کوئی اچھا ڈرامہ آرہا تھا بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس چینل پر ایک بہت ہی خوبصورت اور حسین لڑکی کھڑی تھی جو ایک پروگرام کی میزبانی کررہی تھی۔ دونوں اس حسین چہرے میں کھو گئے ۔ احسن اسے پیار بھری نظروں سے دیکھنے لگا لیکن ٹھیک اس وقت اس کا بڑا بھائی نذیر کمرے میں داخل ہوگیا اور اسے بڑے بھائی کے خوف سے چینل چینج کرنا پڑا لیکن رات گئے تک احسن اور ثاقب دونوں کے ذہنوں میں بس وہی لڑکی چھائی رہی۔ لڑکی اتنی خوبصورت اور پیاری تھی کہ دونوں اس کے معصوم چہرے میں کھو سے گئے تھے۔ صبح جب دونوں کی آنکھ کھلی تو انھیں لگا جیسے وہی لڑکی انہیں جگا رہی ہو۔ بس اب دونوں کے دل میں یہی تمنا تھی کہ وہ لڑکی اس کی ہو جائے ۔ وہ لڑکی کو اپنا بنا لے۔ اس سے شادی کر لے۔ دونوں انٹرنیٹ میں اس لڑکی کا نام نکالنے کی کوشش کرنے لگے۔آخر وہ کامیاب ہو ہی گئے ۔ اس لڑکی کا نام پری تھا۔ واقعی پری کے والدین نے اس کا نام بالکل صحیح رکھا تھا کیونکہ وہ خوبصورتی میں کسی پری سے کم نہیں تھی لیکن مشکل یہ تھی کہ پڑی ہندوستان میں رہتی تھی جبکہ وہ دونوں پاکستان میں رہتے تھے ۔ آخر دونوں نے پری سے ملنے کے لیے ہندوستان جانے کا فیصلہ کیا لیکن وہ اس بات کا ذکر اپنے والدین سے نہیں کر سکتے تھے ۔ اِس وجہ سے انھوں نے ایک دن چھپ کر اپنا سامان باندھا اور ہندوستان کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ ٹکٹ اور پاسپورٹ تو انھوں نے پہلی ہی لے لیا تھا۔ آخر کار دونوں ہندوستان پہنچ گئے ۔ انٹرنیٹ میں وہ دیکھ چکے تھے کہ پری ممبئی میں رہتی تھی اور ایک ادکارہ تھی۔ ہندوستانی ڈرامے میں کام کرتی تھی اور ان دنوں بھی ایک ڈرامے میں کام کر رہی تھی جس میں وہ ہیروئن کا کردار نبھا رہی تھی۔ پری کا انھوں نے مکمل پتا بھی انٹرنیٹ سے نکال لیا تھا۔ اس لیے وہ دونوں سیدھا اس کے گھر پہنچ گئے۔ گھر کے دروازے پر ثاقب اور احسن کا آمنا سامنا ہوا۔ دونوں ایک دوسرے سے ملے۔
" تو تمہارا نام احسن ہے " ثاقب کہہ رہا تھا۔
" جی " احسن نے صرف اتنا ہی کہا۔
" اور یہاں تم کس کام سے آئے ہو " ثاقب نے اسے گھورا۔
" یہ بات تو میں اپنے والدین کو بھی بتا کر نہیں آیا تو آپ کو کیسے بتا دوں " احسن نے منہ بنایا۔
" ویسے تمھیں ایک راز کی بات بتاؤں ۔۔۔۔ میں بھی اپنے والدین سے چھپ کر یہاں آیا ہوں " ثاقب مسکرا کر بولا اور پھر دونوں نے دروازے پر لگی گھنٹی کا بٹن دبا دیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک آدمی باہر نکلا ۔
" جی کون ہیں آپ ۔۔۔۔ اور کس سے ملنا ہے " اس آدمی نے سوال کیا۔
" پہلے تم بتاؤ ۔۔۔۔۔ تم کون ہو " ثاقب نے اسے تیز نظروں سے دیکھا۔
" میں اس گھر کا ملازم ہوں ۔۔۔۔ اب آپ بتائیں ۔۔۔۔کیا کام ہے آپ کو " ملازم بولا۔
" مجھے پری میم سے ملنا ہے " دونوں ایک ساتھ بولے اور پھر ایک دوسرے کی طرف حیرانی سے دیکھنے لگے۔ دونوں سمجھ گئے کہ وہ دونوں ایک ہی کام سے یہاں آئے ہیں یعنی پری سے ملنے۔
" ٹھیک ہے ۔۔۔ آپ دونوں اندر آجائیں " ملازم انھیں اندر لے آیا اور دونوں ڈرائنگ روم میں بیٹھے پری کا انتظار کرنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد ڈرائنگ روم میں پری داخل ہوئی اور وہ دونوں چونک اٹھے ۔ پھر وہ پری کو بس دیکھتے ہی رہ گئے ۔ پری کے چہرے میں کھو سے گئے ۔ اتنی خوبصورت ، اتنی حسین اور جمیل لڑکی انھوں نے آج تک نہیں دیکھی تھی۔ پری صوفے پر آکر بیٹھ گئی اور ان دونوں کا منہ تکنے لگی۔ دونوں کو جیسے احسان ہی نہیں ہوا کہ پری ان کے بولنے کا انتظار کر رہی ہے ۔ وہ دونوں تو بس اس کے چہرے کو اس کے بالوں کو اس کی آنکھوں کو دیکھنے لگے۔ پری کی آنکھیں ایسی جیسے کوئی موتی ، بال اتنے گھنے کہ اگر کوئی ان میں ڈوب جائے تو باہر آنا ناممکن تھا، ہونٹ جیسے غلاب کی پنکھریاں ، چہرے بے داغی۔ غرض اتنی خوبصورت کے اس کی خوبصورتی الفاظ میں بیاں کرنا ناممکن تھا۔
" آپ لوگوں لو مجھ سے کچھ کام تھا "ایک سریلی اور میٹھی آواز انکے کانوں سے ٹکرائی۔
" جج ۔۔۔۔ جی ہاں" احسن ہکلایا۔
" کیا کام ہے آپ کو مجھ سے " پری کی میٹھی آواز ایک بار پھر ان کے دونوں سے ٹکرائی۔
"مم ۔۔۔۔۔ مم۔۔۔۔۔میں آپ سے پیار ۔۔۔۔ " ثاقب نے اتنا ہی کہا تھا کہ سامنے سے ایک شخص ڈرائنگ روم میں داخل ہوگیا۔
" کون ہیں یہ پری " اس شخص نے آتے ہی سوال جڑ دیا۔
" پتا نہیں راجا ۔۔۔۔ یہ کون ہیں " پری نے لاعلمی کا اظہار کیا۔
" یہ آپ کے کون ہیں ؟ " ہمت کر کے احسن نے آنے والے شخص کے بارے میں پوچھا۔
" یہ میرے شوہر ہیں "۔
ان دونوں کا حیرت کا ایک زبردست جھٹکا لگا۔ دونوں کی آنکھوں میں آنسو اتر آئے ۔ یکا یک ان کو چکر آنے لگے اور یہ دنیا اجنبی لگنے لگی۔ اس ایک جملے نے ان کے اوپر قیامت ڈھا دی تھی۔ دونوں اسی وقت وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ پری اور اس کے شوہر راجا نے حیرت کا اظہار کیا لیکن انھیں روک نہ سکے ۔ ثاقب اور احسن اس وقت ایک دریا کے کنارے کھڑے تھے اور پانی کے بہاؤ کو خالی خالی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ اچانک نہ جانے ان کے دل میں کیا آئی دونوں نے ایک ساتھ پانی چھلانگ لگا دی اور پھر کچھ ہی وقت بعد وہ ڈوبنے لگے۔ مرتے وقت یہ الفاظ ان ے منہ سے نکلے۔
" عشق وہی سچا ہوتا ہے ۔۔۔۔ جس کو منزل نہیں ملتی "۔


٭٭٭٭٭
ختم شدہ
٭٭٭٭٭


اپنی اپنی سوچ
اپنا اپنا نظریہ
 
Top