کاشفی
محفلین
غزل
(معراج فیض آبادی)
محبت کو میری پہچان کردے
میرے مولا مجھے انسان کردے
بہت دن سے اکیلا چل رہا ہوں
خداوندا! سفر آسان کردے
در و دیوار شکوہ کررہے ہیں
اُسے اک دن میرا مہمان کردے
شکستہ بام و در دیکھے نہ جائیں
حویلی کو میری میدان کردے
میں جب بولوں تو مہکے ساری محفل
میری آواز کو لوبان کردے
محبت، پیار، رشتے، بھائی چارہ
ہمارے دل کو ہندوستان کردے
غلامی اُس کی کرنی ہی پڑے گی
کوئی مجھ پر اگر احسان کردے
(معراج فیض آبادی)
محبت کو میری پہچان کردے
میرے مولا مجھے انسان کردے
بہت دن سے اکیلا چل رہا ہوں
خداوندا! سفر آسان کردے
در و دیوار شکوہ کررہے ہیں
اُسے اک دن میرا مہمان کردے
شکستہ بام و در دیکھے نہ جائیں
حویلی کو میری میدان کردے
میں جب بولوں تو مہکے ساری محفل
میری آواز کو لوبان کردے
محبت، پیار، رشتے، بھائی چارہ
ہمارے دل کو ہندوستان کردے
غلامی اُس کی کرنی ہی پڑے گی
کوئی مجھ پر اگر احسان کردے