محبوب مل گیا ہے بنا خونِ جگر واہ غزل نمبر 66 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
محبوب مل گیا ہے بِنا خونِ جگر واہ
میری بھی دعاؤں میں ہوگا اتنا اثر واہ

غیروں پہ کرم اور عنایات کی بارش
اور ہم پہ نہیں کوئی عنایت کی نظر واہ

ہم قیس بنے پھرتے رہے عشقِ یار میں
لیکن ہوئی اس بات کی نہ ان کو خبر واہ

یہ جانتے ہوئے بھی کہ معلوم ہے سب کچھ
پھر بھی وہ پیش کرتے ہیں کچھ اپنا عذر واہ

ہر ایک فیصلے میں یہ کرتے ہیں مشورہ
عشق اور عقل آج کل ہیں شیر و شکر واہ

ڈرتا نہیں آتش ہو کہ صحرا ہو یا کوہسار
یہ عشق ہمیشہ سے ہے بے خوف و خطر واہ

ہم چپ نہ رہے گے کبھی اس بات پر ہمدم
پھل کھائے وہ ہم کرتے رہے صرف صبر واہ

جانے سے تیرے گلشنِ دل بھی ہوا برباد
آنے سے تیرے زیست کی شب بھی ہے سحر واہ

سائے میں سکوں دیتا ہے خود دھوپ میں جل کر
ہے شفقتِ ماں باپ بھی مانندِ شجر واہ

جنگل میں چلا جائے گا اک دن اداس دل
اک جان کے پیچھے ہے پڑا سارا شہر واہ

ذرے میں وہ چاہے تو سمٹ سکتا ہے صحرا
چاہے تو سمو سکتا ہے قطرے میں بحر واہ

دل پاش ہے مٹی سے بھی کمتر تھے وہی لوگ
ہم جس کو سمجھتے رہے تھے لعل و گہر واہ

گھر میں حلال و پاک میسر ہے مگر کیوں
پھر بھی وہ دیکھتے ہیں اِدھر اور اُدھر واہ

پڑھ کر میرا کلام کہا میرِ سخن نے
غزلیں سبھی اچھی تیری اک غزل مگر واہ

یہ بات سمجھنے کی ہے اے اہلِ ذوق و شوق
شاعر کا خون سیروں بڑھادیتی ہے ہر واہ

اللہ پہ توکل کی اچھوتی مثال ہے
کیا خوب معرکہ تھا وہ اک جنگِ بدر واہ

اپنا مجھے اپنا کہے ہو رنجشیں سب دور
شارؔق مجھے بالکل نہیں پھر غیر کی پرواہ
 

الف عین

لائبریرین
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن اور مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن کی مخلوط بحر بن گئی ہے، یعنی دو بحور۔
 
Top