محبّت خدا کی ہے میری کمائی------برائے اصلاح

الف عین
عظیم
یاسر شاہ
خلیل الرحمن
----------
فعولن فعولن فعولن فعولن
---------------
محبّت خدا کی ہے میری کمائی
مجھے جس نے ساری ہے دنیا بھلائی
------------
اسے بھول جانا تو ممکن نہیں ہے
ہمیشہ ہے دل سے یہ آواز آئی
-----------
تجھے یاد رکھا ہے میں نے ہمیشہ
رہی یاد تیری ہی دل میں سمائی
-------------
کبھی خود کو تنہا تو سمجھا نہیں ہے
خیالوں نے تیرے ہے محفل جمائی
------------
تجھے دیکھتا ہوں جدھر دیکھتا ہوں
تمہارے ہی جلوے ہیں دیتے دکھائی
------------
مجھے تُو نے تنہا نہ چھوڑا کبھی بھی
دکھاتا ہے رستہ ،ہے پکڑی کلائی
------------
کبھی سر نہ غیروں کے در پر جھکا ہے
ترے سامنے ہی جبیں ہے جھکائی
----------
رہے ساتھ تیرا مری زندگی میں
خدایا یہ دیتا ہے ارشد دہائی
-------------
 

الف عین

لائبریرین
محبّت خدا کی ہے میری کمائی
مجھے جس نے ساری ہے دنیا بھلائی
------------دوسرا مصرع رواں نہیں
مجھے جس نے ہے ساری دنیا..
بہتر ہو گا

اسے بھول جانا تو ممکن نہیں ہے
ہمیشہ ہے دل سے یہ آواز آئی
----------- تو بھرتی کا لفظ ہے
اسے بھول جاؤں، یہ. ممکن نہیں ہے
سدا میرے دل سے..
بہتر ہو گا

تجھے یاد رکھا ہے میں نے ہمیشہ
رہی یاد تیری ہی دل میں سمائی
------------- یاد دونوں مصرعوں میں دہرایا گیا ہے
کبھی میں نے تجھ کو بھلایا نہیں ہے.
بہتر ہے

کبھی خود کو تنہا تو سمجھا نہیں ہے
خیالوں نے تیرے ہے محفل جمائی
------------ میں نے کا اضافہ ہہتر ہو گا
کبھی خود کو سمجھا نہیں میں نے تنہا
دوسرے مصرعے میں 'ہے' کی جگہ'ہی' کیسا رہے گا؟

تجھے دیکھتا ہوں جدھر دیکھتا ہوں
تمہارے ہی جلوے ہیں دیتے دکھائی
------------ شتر گربہ ، تمہیں دیکھتا ہوں....

مجھے تُو نے تنہا نہ چھوڑا کبھی بھی
دکھاتا ہے رستہ ،ہے پکڑی کلائی
------------ کبھی بھی. اچھا بیانیہ نہیں
کبھی مجھ کو تو نے اکیلا نہ چھوڑا
دوسرے مصرعے میں 'دکھایا ہے' ہتر ہو گا

کبھی سر نہ غیروں کے در پر جھکا ہے
ترے سامنے ہی جبیں ہے جھکائی
---------- ٹھیک

رہے ساتھ تیرا مری زندگی میں
خدایا یہ دیتا ہے ارشد دہائی
------------- دہانی ہمیشہ منفی بات کی دی جاتی ہے
جیسے
کبھی ساتھ تیرا نہ یوں مجھ سے چھوٹے
یا اس قسم کا مصرع درست ہو جائے گا
 
الف عین
تصحیح کے بعد دوبارا
---------
محبّت خدا کی ہے میری کمائی
مجھے جس نے ہے ساری دنیا بھلائی
----------------
اسے بھول جاؤں، یہ. ممکن نہیں ہے
سدا میرے دل سے یہ آواز آئی
------------
کبھی میں نے تجھ کو بھلایا نہیں ہے.
رہی یاد تیری ہی دل میں سمائی
-------------
کبھی خود کو سمجھا نہیں میں نے تنہا
خیالوں نے تیرے ہی محفل جمائی
-------------
تمہیں دیکھتا ہوں جدھر دیکھتا ہوں
تمہارے ہی جلوے ہیں دیتے دکھائی
------------
کبھی مجھ کو تو نے اکیلا نہ چھوڑا
دکھایا ہے رستہ ،ہے پکڑی کلائی
-------------
کبھی سر نہ غیروں کے در پر جھکا ہے
ترے سامنے ہی جبیں ہے جھکائ
------------
کبھی ساتھ تیرا نہ یوں مجھ سے چھوٹے
خدایا یہ دیتا ہے ارشد دہائی
-------------
 

الف عین

لائبریرین
دو باتوں کی طرف مزید خیال گیا ہے
یہاں اکلوتے شعر میں تخاطب تم کی جگہ تو ہی کر دو، پہلے محض شتر گربہ درست کیا تھا
تمہیں دیکھتا ہوں جدھر دیکھتا ہوں
تمہارے ہی جلوے ہیں دیتے دکھائی
کو
تجھے دیکھتا......
کہ تیرے ہی.../ ترے ہی نظارے......
اس کے علاوہ ان دونوں اشعار کی پو زیشن بدل دو، متصل اشعار میں تقریباً ایک ہی بات ہے
اسے بھول جاؤں، یہ. ممکن نہیں ہے
سدا میرے دل سے یہ آواز آئی
------------
کبھی میں نے تجھ کو بھلایا نہیں ہے.
رہی یاد تیری ہی دل میں سمائی
باقی تو درست ہو ہی گئی ہے غزل
 
Top