محبّت نہ دنیا سے معدوم ہو گی------برائے اصلاح

الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
@سیّد عاطف علی
محمّد احسن سمیع :راحل:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فعولن فعولن فعولن فعولن
محبّت نہ دنیا سے معدوم ہو گی
ملے گی تبھی گر یہ مقسوم ہو گی
--------
محبّت ہے آزاد رہنے کی طاقت
کسی کی کبھی یہ نہ محکوم ہو گی
-------یا
جو کرنا بھی چاہو نہ محکوم ہو گی
----------
بنے گی جہاں میں وہ نفرت کا باعث
کسی کی بھی حرکت جو مزموم ہو گی
------
گناہوں کے زمرے میں آئیں گی باتیں
--------
بُرائی کے زمرے میں آئیں گی باتیں
وطن کی فضا جن سے مسموم ہو گی
-----------
خدا نے چھپایا گناہوں کو میرے
حقیقت نہ دنیا کو معلوم ہو گی
-----------
گناہوں سے توبہ کرے گا اگر تُو
تبھی ذات تیری تو مرحوم ہو گی
------------
کرے گا زمانہ بھی تعریف اُس کی
تری بات ارشد جو منظوم ہو گی
-------------
نوٹ ( مرحوم بمعنی ---رحم کیا گیا)
 

الف عین

لائبریرین
محبّت نہ دنیا سے معدوم ہو گی
ملے گی تبھی گر یہ مقسوم ہو گی
-------- درست

محبّت ہے آزاد رہنے کی طاقت
کسی کی کبھی یہ نہ محکوم ہو گی
-------یا
جو کرنا بھی چاہو نہ محکوم ہو گی
---------- پہلا متبادل ہی بہتر ہے

بنے گی جہاں میں وہ نفرت کا باعث
کسی کی بھی حرکت جو مزموم ہو گی
------ حرکع، درست تلفظ کے ساتھ یعنی حَ رَ کَ ت اب بحر میں آ ہی نہیں سکتی، فعل، عمل وغیرہ مزکر ہوتے ہیں۔ ہاں 'کرنی' مؤنث ہے جو یہاں آ سکتی ہے

گناہوں کے زمرے میں آئیں گی باتیں
--------
بُرائی کے زمرے میں آئیں گی باتیں
وطن کی فضا جن سے مسموم ہو گی
----------- ساری باتیں، یہ تو کچھ زیادہ ہی بعید ہو گیا، ہاں یوں کہہ سکتے ہیں
برائی کے زمرے میں آئیں وہ باتیں
وطن کی فضا ان سے.....

خدا نے چھپایا گناہوں کو میرے
حقیقت نہ دنیا کو معلوم ہو گی
----------- حقیقت کسی کو نہ معلوم ہو گی
شاید بہتر ہے

گناہوں سے توبہ کرے گا اگر تُو
تبھی ذات تیری تو مرحوم ہو گی
------------ مرحوم رحم کیا ہوا کے معنوں میں کوئی نہیں لے گا، اس لیے اس شعر کو نکال ہی دو

کرے گا زمانہ بھی تعریف اُس کی
تری بات ارشد جو منظوم ہو گی
------------- درست، اگرچہ یہ بھی وہی ہے جسے میں زبردستی کا قافیہ کہتا ہوں
 
الف عین
(اصلاح کے بعد حاضرِ خدمت )
-----------
محبّت نہ دنیا سے معدوم ہو گی
ملے گی تبھی گر یہ مقسوم ہو گی
--------
محبّت ہے آزاد رہنے کی طاقت
کسی کی کبھی یہ نہ محکوم ہو گی
-------
بنے گی جہاں میں وہ نفرت کا باعث
کسی کی بھی کرنی جو مزموم ہو گی
--------
برائی کے زمرے میں آئیں وہ باتیں
وطن کی فضا ان سے. مسموم ہو گی
------------
خدا نے چھپایا گناہوں کو میرے
حقیقت کسی کو نہ معلوم ہو گی
-----------
تلافی گناہوں کی ہے تیری توبہ
کبھی بھی نہ بخشش سے محروم ہو گی
-----------
خدا پر توکّل کرو گے جو ارشد
کبھی روح تیری نہ مغموم ہو گی
----------
 
مکرمی ارشدؔ صاحب، آداب!
امید ہے مزاج بخیر ہوں گے۔
کچھ نکات آپ کی توجہ کے متقاضی ہیں۔

برائی کے زمرے میں آئیں وہ باتیں
وطن کی فضا ان سے. مسموم ہو گی
کون سی باتیں؟؟؟ میری ناچیز رائے میں تو شعر میں اس بات کی کوئی وضاحت نہیں۔

خدا نے چھپایا گناہوں کو میرے
حقیقت کسی کو نہ معلوم ہو گی
پہلا مصرعہ ماضی کے صیغے میں ہے جبکہ دوسرا مستقبل میں، وہ بھی بغیر کسی حرفِ ربط کے۔ نثر میں لکھیں تو آپ کا مافی الضمیر غالباً کچھ یوں بیان ہوگا کہ ’’خدا نے کچھ اس طرح میرے عیبوں کو چھپا لیا کہ اب حقیقت کسی کو معلوم نہیں ہوسکے گی‘‘۔ دیکھیں یہاں بحر کی بندش کی وجہ سے ہی سہی، مگر کتنے الفاظ غائب ہیں اور یہ کیفیت مفہوم کی کامل ادائیگی میں مانع ہے۔

تلافی گناہوں کی ہے تیری توبہ
کبھی بھی نہ بخشش سے محروم ہو گی
توبہ کی بخشش تو بے معنی بات ہے۔ توبہ تو رد و قبول پر منتنج ہوتی ہے

خدا پر توکّل کرو گے جو ارشد
کبھی روح تیری نہ مغموم ہو گی
ایک بار پھر ۔۔۔ غزل کے خیمے میں اونٹ بلی سمیت آن گھسا ہے!

دعاگو،
راحلؔ
 

الف عین

لائبریرین
برائی کے زمرے میں آئیں..... تمنائی کے صیغے میں ہونے سے درست ہے جیسا میں نے مشورہ دیا تھا، یعنی یائے لین کے ساتھ، ماضی کے صیغے میں نہیں جو 'آئی' کی جمع کے طور پر ہو۔
باقی اشعار میں راحل سے متفق ہوں
 
محمّد احسن سمیع :راحل:
(اصلاح)
برائی کے زمرے میں آئیں گی باتیں
وطن کی فضا جن سے . مسموم ہو گی
----------
مری خامیاں ہیں زمانے سے پنہاں
حقیقت کسی کو نہ معلوم ہو گی
----------
گناہوں کی لذْت جو اک عارضی ہے
مگر روح ان سے ہی مغموم ہو گی
------------
کرے گی یہ دنیا تجھے یاد ارشد
تری ذات سے جب یہ محروم ہو گی
-------یا
تری شاعری سے جو محروم ہو گی
----------
 
گناہوں کی لذْت جو اک عارضی ہے
مگر روح ان سے ہی مغموم ہو گی
پہلے مصرعے میں ’’اک‘‘ بھرتی کا ہے۔
دوسرے مصرعے میں ’’ان‘‘ کی بجائے ’’اس‘‘ کہیں کیوں اس کی ضمیر گناہوں کی ’’لذت‘‘ کی طرف جا رہی ہے، نہ کہ گناہوں کی طرف۔
مقطعے میں پہلا متبادل ہی بہتر معلوم ہوتا ہے۔
باقی بھی درست ہی لگ رہے ہیں

دعاگو،
راحلؔ
 

الف عین

لائبریرین
مزید یہ کہ....
برائی کے زمرے میں آئیں گی باتیں
.. اب بھی غلط ہے، 'آئےں' جو باتیں، تمنائی کے ساتھ درست ہے، اور 'جو' کی بھی ضرورت ہے، اس کے بغیر ساری باتیں گناہوں کے زمرے میں کیسے آ سکتی ہیں!
گناہوں کی لذْت جو اک عارضی ہے
مگر روح ان سے ہی مغموم ہو گی
------------ روح کا مغموم ہونا بھی عجیب ہے، 'اک' کی جگہ تو 'بس' لایا جا سکتا ہے
 
Top