محترمۂ مرحومہ کوتعزیتی جلسوں کی سوغات-----از: عمیرکوٹی ندوی

طنزومزاح

محترمۂ مرحومہ کوتعزیتی جلسوں کی سوغات

عمیرکوٹی ندوی

گزشتہ دنوں فرزندان توحیدکے یہاںیہ خبر بڑے افسوس کے ساتھ پڑھی اورسنی گئی کہ محترمہ سلطنت اسلامیہ کو۳؍جولائی ۲۰۱۳ء کی شب مصرمیںشہیدکردیاگیااور اب توتربت کی آبروبھی داؤںپر ہے۔اناللہ واناالیہ راجعون۔اللہ مرحومہ کی مغفرت فرمائے اورپسماندگان کوصبرجمیل عطافرمائے۔سب جانتے ہیں کہ مرحومہ فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کی دختر اوراخوان المسلمین کی نواسی تھیں۔انہوںنے ایک برس کی عمرپائی۔وہ نیک اختر تھیں کہ جلد ہی جام شہادت نوش فرماکراپنے رب کے حضورحاضرہوگئیں لیکن اپنے پیچھے ایسے جانشیںچھوڑگئیں جوہزارہا کلفتوں کے باوجود ان کے نقش پا پرتاحیات چلتے رہیں گے۔ حیرت ہے کہ اس مختصرترین مدت حیات میں ہی انہوںنے اپنے لئے بے شماردشمن پیداکرلئے تھے اورسفرآخرت بھی انہوںنے ان ہی کے دوش پرطے کیا۔کل کی ہی توبات ہے برسوں کی آرزئوں اوردعائوں کے بعد ان کی ولادت ہوئی تھی۔ ہرطرف دادوتحسین کا غلغلہ تھا۔ تعظیم وتکریم کے لئے الفاظ کم پڑرہے تھے۔ولادت کاجشن ابھی تھما بھی نہ تھاکہ دخترِنیک اخترکی شہادت کی خبرآگئی۔

خبرمانندنشتروارد ہوئی-دیکھتے ہی دیکھتے ہاتھ دعاکے لئے اٹھ گئے۔لیکن یہ کیا اس بار منظرجداہے۔یہ وہ ہاتھ نہیںہیں جوجشن ولادت کے موقع پرمحترمہ سے اظہارقرابت داری میںزورزورسے ہل رہے تھے ۔وہ بھی نہیں ہیں جواسٹیج سجاسجاکرمحترمہ سے اپنے رشتوں اورقربتوںکوبیان کررہے تھے۔وہ بھی نہیں ہیں جواس میںسبقت لے جانے پردوسروں کومنہ چڑھارہے تھے اوروہ بھی نہیں ہیں جوپیچھے رہ جانے پرمنہ بنارہے تھے۔اس باران سب کی اکثریت غائب ہے۔پھریہ اٹھے ہوئے ہاتھ مرحومہ کے کن بھولے بھالے رشتہ داروں کے ہیں؟ان کی شناخت سے بہترہے کہ اس اکثریت کا پتہ لگایاجائے جوغائب ہے۔اگرکہیںاس کی طرف سے اس خبرپرہلنے ہلانے کی کسی کیفیت کا اظہارہورہاہے توحال دروں کی کسی اورکیفیت کوبیان کررہاہے۔وہاں کیف ومستی ہے، دل شاداں و فرحاں ہے۔حالاں کہ اس اکثریت نے مرحومہ سے ایک نہیں کئی کئی رشتوں کے دعوے کررکھے ہیں۔کچھ نے خون کے توبہتو ں نے اس سے بھی بڑھ کرحرارت ایمانی کے۔واقعہ بھی یہی ہے کہ حرارت ایمانی کارشتہ سرحدوں کی قیودسے آزادپوری دنیامیں پھیلاہواہے۔رشتہ آج کانہیں بہت پراناہے۔یہ وہی رشتہ ہے جس کی بنیادپراس حادثۂ عظیم سے پہلے کچھ لوگ دنیابھرمیں مرحومہ کے آباء واجدادسے اپنی قربت وقرابت کادم بھرتے نہیںتھکتے تھے۔

اس مصیبت کی گھڑی میںان سب کی زبانیں گنگ ہیں،نظریںخود کوچھپاتی پھررہی ہیںاورسرریت کے تودوںکی تلاش میںگردآلود ہورہے ہیں۔قریب اوردور ،سگے اورسوتیلے سب پرعجب کیفیت طاری ہے۔پرائے حمیت وحرارت ایمانی کے ہاتھوں بے خود ہوکربارباردعاکے لئے ہاتھ اٹھارہے ہیں،آہ وفغاں کررہے ہیں،نعرے بلندکررہے ہیں۔لیکن اپنے،وہ تواپنے ہیں۔انہوںنے موقع شناسی کی ڈگریاںحاصل کررکھی ہیں اوروہی آج کام آرہی ہیں۔ یہ ڈگریاں کچھ کوآہ وفغاں تودوررونی صورت بنانے کی اجازت بھی نہیںدے رہی ہیں۔ پٹرول کی خوشبوفریفتہ کررہی ہے اورذرہ نوازی شاداںوفرحاں دکھنے کاحکم دے رہی ہے۔ قرابت داروںمیں ایک تعدادان کی بھی ہے جنہیںیہ سب کچھ تونصیب نہ ہوالیکن ایک نسخۂ کیمیاضرورہاتھ آگیا۔خواب گاہوںمیںمرحومہ کے لئے ایصال ثواب کاسامان فراہم کردیاگیاہے اور اب دادعیش دیتے ہوئے انہیں تعزیتی جلسوں کی سوغات پیش کرنے کا ایک سلسلہ چل پڑاہے۔یہ طریق خوب ہے۔قرابت دار ‘‘رند کے رند رہے اورہاتھ سے جنت نہ گئی’’ ۔ جناب حافظ دھامپوری یہ دیکھ ہاتھ ملتے رہ گئے ۔ ان کی مشہورزمانہ نظم‘‘اگردوخداہوتے سنسارمیں’’جوکام نہ کرسکی اوردوخدائوں کے مابین توازن قائم کرنے میں ناکام رہنے پراس نے بالآخر اس کار کو بلا سے تعبیرکردیا،بھلا ہو مرحومہ کے ان قرابت داروں کا، انہو ں نے اس سے بھی بڑاکارنامہ چشم زدن میں انجام دیدیا۔ دوچھوڑ کئی کئی خدائوں کے درمیان توازن قائم کرکے دکھلادیاگیاکہ ان کے یہاںیہ کوئی بلانہیں ہے۔ یہاںتوکثرت میں ہی برکت ہے۔ خدابھی خوش اورخَلق بھی خوش۔قصۂ مختصر تعزیتی جلسوں کی یہ خاموشی ایک ساتھ کئی شکار کررہی ہے۔آئیے ہم سب بھی مرحومہ کی یادمیں ایک منٹ کے لئے خاموش رہتے ہیںشاید آئنۂ دروںمیں ہمیں بھی کچھ نظرآجائے۔
 
آخری تدوین:
Top