فرخ منظور
لائبریرین
محتسب آیا بزم میں، ساقی لے آ شراب کو
یہ نہ سمجھ کہ شب پرک دیکھے گی آفتاب کو
آنکھوں کا میری ان دنوں، یارو ہے طرفہ ماجرا
میں تو روؤں ہوں اُن کے تئیں ہنستی ہیں یہ سحاب کو
دم ہی رہا یہ پیرہن، تن تو ہو اشک بہہ گیا
جن نے نہ دیکھا ہو مجھے، دیکھے وہ جا حباب کو
پند سے تیری زاہدا ! حال مرا یہ مے سے ہے
سگ کا گزیدہ جس طرح دیکھ ڈرے ہے آب کو
مجنوں بہ ریگِ بادیہ کیوں نے کرے شمارِ غم
یاں نہ تو جا شمار کی، دخل نہ یاں حساب کو
موسمِ گُل میں اب کے سال، بادہ بغیر ساقیا
ہم نے کیا بہ جامِ چشم، خونِ دلِ خراب کو
یار کے بیتِ ابرو پر خال نہیں، وہ ہے نقط
آفریں ہے صد آفریں صاحبِ انتخاب کو
خامشی موجبِ رضا کب ہو سوالِ بوسہ کی
تنگی ہی اس دہن کی راہ دیتی نہیں جواب کو
سودا امیدِ وصل کی کس کو ہے یاں کہ رہ نہیں
اپنے دل اور چشم میں ایسے خیال و خواب کو
(مرزا رفیع سودا)
یہ نہ سمجھ کہ شب پرک دیکھے گی آفتاب کو
آنکھوں کا میری ان دنوں، یارو ہے طرفہ ماجرا
میں تو روؤں ہوں اُن کے تئیں ہنستی ہیں یہ سحاب کو
دم ہی رہا یہ پیرہن، تن تو ہو اشک بہہ گیا
جن نے نہ دیکھا ہو مجھے، دیکھے وہ جا حباب کو
پند سے تیری زاہدا ! حال مرا یہ مے سے ہے
سگ کا گزیدہ جس طرح دیکھ ڈرے ہے آب کو
مجنوں بہ ریگِ بادیہ کیوں نے کرے شمارِ غم
یاں نہ تو جا شمار کی، دخل نہ یاں حساب کو
موسمِ گُل میں اب کے سال، بادہ بغیر ساقیا
ہم نے کیا بہ جامِ چشم، خونِ دلِ خراب کو
یار کے بیتِ ابرو پر خال نہیں، وہ ہے نقط
آفریں ہے صد آفریں صاحبِ انتخاب کو
خامشی موجبِ رضا کب ہو سوالِ بوسہ کی
تنگی ہی اس دہن کی راہ دیتی نہیں جواب کو
سودا امیدِ وصل کی کس کو ہے یاں کہ رہ نہیں
اپنے دل اور چشم میں ایسے خیال و خواب کو
(مرزا رفیع سودا)