خورشیداحمدخورشید
محفلین
نئی گاڑی خریدنے کا ارداہ کیا تو اکثر دوستوں نے مشورہ دیا کہ فلاں گاڑی کی کلومیٹرز فی لیٹر اوسط سب سے زیادہ ہے اس لیے وہی لینی چاہیے۔ میں نے جب مزید تحقیق کی تو پتا چلا کہ کمپنی کی طرف سے جو اوسط بتائی گئی ہے اس کے لیے کئی شرائط ہیں۔ جیسے آپ موٹر وے جیسی روڈ پر سفر کررہے ہوں، آپ کی رفتار ایک خاص رینج میں رہے، آر پی ایم ایک حد سے زیادہ نہ ہو وغیرہ، ورنہ اوسط برقرار نہیں رہے گی۔عام لوگ ان شرائط کے بارے میں نہیں جانتے یا جاننے کی کوشش نہیں کرتے اور محدود علم کی بنیاد پر دعوٰی کردیتے ہیں جو کہ ظاہر ہے عام حالات میں صحیح نہیں ہوتا۔ یہ تو عام لوگوں کی بات ہوگئی۔ اب ہم ذرا ہٹ کر بات کرتے ہیں:
ایک بندہ کہتا ہے کہ فلاں وقت پر میں نے کوئی آواز نہیں سنی۔ انسان کی سننے کی ایک خاص فریکوئنسی رینج ہے۔ کوئی انسان سننے یا نہ سننے کا دعوٰی اسی محدود رینج کی بنیاد پر کرتا ہے۔ لیکن بہت سی آوازیں اس رینج سے باہر بھی ہوتی ہیں جو ظاہر ہے انسان نہیں سن سکتا۔ اس لیے اس کا دعوٰی محدود علم کی بنیاد پر کیا گیا ہوتا ہے جو ظاہر ہے کہ حقیقتِ مطلق نہیں۔
ایک بندہ کہتا ہے تاحدِ نگاہ میں نے کسی جانور کو نہیں دیکھا۔ یہاں بھی حدِ نگاہ کی محدودیت ہے ۔ یعنی اس حد سے آگے بہت سے جانور ہیں لیکن اسے چونکہ نظر نہیں آرہے اس لیے اس نے کوئی جانور نہ دیکھنے کا دعوٰی کیا ہے۔
کوئی کہتا ہے کہ میں نے فٹ بال کے سائز کے برابر ایک پھل دیکھا۔ یہاں بھی اس کا دعوٰی اس عدسے کی بنیاد پر ہے جو اس کی آنکھ میں فکس ہے۔جس کا سائز کم یا زیادہ کرنے سے نظر آنے والی چیزوں کا سائز بھی کم یا زیادہ ہو سکتا ہے۔ فٹبال کا اصل سائز کیا ہے کوئی نہیں جانتا۔
اب ہم سائنس کے دعووں کی طرف آتے ہیں:
سائنس کہتی ہے کہ کسی چیز کا وزن کششِ ثقل ( کسی چیز کو زمین کا اپنے مرکز کی طرف کھینچنا) کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ فارمولا یا دعوٰی درست ہے لیکن ایک دائرے کے اندر کام کرتا ہے۔ وہ دائرہ جس میں کششِ ثقل موجود ہے لیکن کائنات اس دائرے کے مقابلے میں لامحدود ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ دعوٰی بھی بہت ہی محدود ہے۔
سائنسدان زمین کے حرکت کرنے کی ایک رفتار بتاتے ہیں۔ لیکن یہ رفتار کسی خاص ریفرنس کے مطابق ہے اگر ریفرنس تبدیل ہوجائے گا تو رفتار کی مقدارکم یا زیادہ ہوجائے گی۔ (جیسے ایک گاڑی کی رفتار 100 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ لیکن اگر اس کی رفتار اس کے ساتھ سفر کرتی گاڑی جس کی اپنی رفتار بھی سو کلومیٹر فی گھنٹہ ہے کے ریفرنس سے ناپی جائے گی تو وہ صفر ہوگی) تو یہ دعوٰی بھی مطلق نہ ہوا۔
لامحدود کائنات میں مختلف دائروں میں مختلف سائنسی اصول کام کررہے ہیں۔ماہرینِ علم کسی اصول کو دریافت کرتے ہیں اسے کام میں بھی لاتے ہیں۔لیکن یہ اصول کائنات کے مقابلے میں صرف ایک نہ ہونے کے برابر دائرے میں کام کرتے ہیں۔اس لیے ماہرین کا علم بھی صرف ایک چھوٹے سے دائرے تک محدود ہوتا ہے مطلق علم نہیں ہوتا۔
اس ناقص اور (لامحدود کے مقابلے میں ) نہ ہونے کے برابر علم پر اگر کوئی تکبر کرے تو یہ اسے زیب نہیں دیتا۔ہم خدا پر یقین رکھتے ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ غرور اور تکبر صرف اس ذات کی صفت ہے جو لامحدود اور مطلق علم کامالک اور لامحدود اختیار رکھتاہے۔
نوٹ: یہ تحریر بچے کا تسلسل ہے۔
ایک بندہ کہتا ہے کہ فلاں وقت پر میں نے کوئی آواز نہیں سنی۔ انسان کی سننے کی ایک خاص فریکوئنسی رینج ہے۔ کوئی انسان سننے یا نہ سننے کا دعوٰی اسی محدود رینج کی بنیاد پر کرتا ہے۔ لیکن بہت سی آوازیں اس رینج سے باہر بھی ہوتی ہیں جو ظاہر ہے انسان نہیں سن سکتا۔ اس لیے اس کا دعوٰی محدود علم کی بنیاد پر کیا گیا ہوتا ہے جو ظاہر ہے کہ حقیقتِ مطلق نہیں۔
ایک بندہ کہتا ہے تاحدِ نگاہ میں نے کسی جانور کو نہیں دیکھا۔ یہاں بھی حدِ نگاہ کی محدودیت ہے ۔ یعنی اس حد سے آگے بہت سے جانور ہیں لیکن اسے چونکہ نظر نہیں آرہے اس لیے اس نے کوئی جانور نہ دیکھنے کا دعوٰی کیا ہے۔
کوئی کہتا ہے کہ میں نے فٹ بال کے سائز کے برابر ایک پھل دیکھا۔ یہاں بھی اس کا دعوٰی اس عدسے کی بنیاد پر ہے جو اس کی آنکھ میں فکس ہے۔جس کا سائز کم یا زیادہ کرنے سے نظر آنے والی چیزوں کا سائز بھی کم یا زیادہ ہو سکتا ہے۔ فٹبال کا اصل سائز کیا ہے کوئی نہیں جانتا۔
اب ہم سائنس کے دعووں کی طرف آتے ہیں:
سائنس کہتی ہے کہ کسی چیز کا وزن کششِ ثقل ( کسی چیز کو زمین کا اپنے مرکز کی طرف کھینچنا) کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ فارمولا یا دعوٰی درست ہے لیکن ایک دائرے کے اندر کام کرتا ہے۔ وہ دائرہ جس میں کششِ ثقل موجود ہے لیکن کائنات اس دائرے کے مقابلے میں لامحدود ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ دعوٰی بھی بہت ہی محدود ہے۔
سائنسدان زمین کے حرکت کرنے کی ایک رفتار بتاتے ہیں۔ لیکن یہ رفتار کسی خاص ریفرنس کے مطابق ہے اگر ریفرنس تبدیل ہوجائے گا تو رفتار کی مقدارکم یا زیادہ ہوجائے گی۔ (جیسے ایک گاڑی کی رفتار 100 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ لیکن اگر اس کی رفتار اس کے ساتھ سفر کرتی گاڑی جس کی اپنی رفتار بھی سو کلومیٹر فی گھنٹہ ہے کے ریفرنس سے ناپی جائے گی تو وہ صفر ہوگی) تو یہ دعوٰی بھی مطلق نہ ہوا۔
لامحدود کائنات میں مختلف دائروں میں مختلف سائنسی اصول کام کررہے ہیں۔ماہرینِ علم کسی اصول کو دریافت کرتے ہیں اسے کام میں بھی لاتے ہیں۔لیکن یہ اصول کائنات کے مقابلے میں صرف ایک نہ ہونے کے برابر دائرے میں کام کرتے ہیں۔اس لیے ماہرین کا علم بھی صرف ایک چھوٹے سے دائرے تک محدود ہوتا ہے مطلق علم نہیں ہوتا۔
اس ناقص اور (لامحدود کے مقابلے میں ) نہ ہونے کے برابر علم پر اگر کوئی تکبر کرے تو یہ اسے زیب نہیں دیتا۔ہم خدا پر یقین رکھتے ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ غرور اور تکبر صرف اس ذات کی صفت ہے جو لامحدود اور مطلق علم کامالک اور لامحدود اختیار رکھتاہے۔
نوٹ: یہ تحریر بچے کا تسلسل ہے۔