سید فصیح احمد
لائبریرین
عالی شان بنگلے کے عقبی لان کے پار ایک خستہ حال کمرہ تھا۔ جس کے روشندان میں چڑیا کے ویران گھونسلے سے ٹکرا کر باہر اآتی روشنی سامنے موجود تازہ رنگ ہوئے کمرے کی کھڑی پر رات کی تاریکی میں عجب نقش بنا رہی تھی۔
" نہ جانے کب سوئے گا یہ بُڈھا۔ کتنی بار کہا ہے روشنی جلدی بُھجا دیا کریں بچے ٹھیک سے سو نہیں پاتے۔ مگر میری اس گھر میں سنتا ہی کون ہے " ۔۔۔۔۔۔۔ فوزیہ زیرِ لب الجھی سی بڑبڑائے جا رہی تھی۔
" سو جاؤ اب، یوں تمہارے کسمسانے سے ابو لائٹ بند نہیں کرنے والے۔ برسوں سے اس وقت وہ پابندی سے پڑھائی کرتے آ رہے ہیں۔ " یاسر اس کی بڑبڑاہٹ سن کر آنکھیں بند کیئے ہی بولا ۔۔۔۔۔۔ لان میں ٹڈوں نے بھی شور برپا کر رکھا تھا۔
" ہُنہہ! ساری زندگی ہو گئی پڑھتے اب اور کتنا پڑھیں گے؟ " لہجے میں خفگی تھی ۔۔۔۔۔ " ابو کا غصہ مجھ پر کیوں اتار رہی ہو؟ خود ہی پوچھ لو ان سے جا کر " ۔۔۔۔۔ یاسر کے جواب کے بعد کمرے میں خاموشی رہی۔ لان کے پار اس پرانے کمرے کی خستہ دیواروں میں محرابیں بنی تھیں جو کتابوں سے بھری پڑی تھیں۔ کونے میں پڑی مسہری پر بیٹھا ایک ضعیف عمر شخص موٹی سی کتاب میں گم تھا۔ بدن میں نقاہت کے سبب خفیف سی کپکپی جاری تھی۔ وقفے وقفے سے کھانسی کا دور چلتا تو کچھ دیرکے لیئے چھت کی طرف منہ کر کے لمبی لمبی سانسیں لینے لگتا۔ پانی کا گھونٹ بھرتا اور پھر عینک سنبھالے کتاب میں گم ہو جاتا۔
پھر کچھ دن بعد وہ ادھیڑ عمر شخص وفات پا گیا۔ صحن میں میت پڑی تھی اور لوگ افسوس کرنے کے لیئے جمع ہو رہے تھے۔ یاسر تعزیت کرنے والوں سے ملنے کے علاوہ دوسرے انتظامات کرنے میں بھی مصروف تھا۔ فوزیہ بھی عقبی لان میں افسوس کرنے والی خؤاتین کو نپٹا رہی تھی۔ وقفے وقفے سے جب اس کی نگاہ اس پرانے کمرے کی طرف اٹھتی تو وہ کسی سوچ میں گم جاتی۔ اچانک اس کی نظر ایک کم عمر لڑکے پر پڑی تو اس نے جلدی سے اسے ایک طرف کر کے بے چینی سے پوچھا " مستری چاچا ملے؟ کیا کہتے ہیں کب اآئیں گے؟ " ۔۔۔۔۔۔ " جی خالہ چاچا کہہ رہے تھے کہ میت اٹھنے کے کچھ دیر بعد میں پہنچ جاؤں گا۔ آپ فکر نہ کریں " لڑکے کا جواب سن کر فوزیہ کے ماتھے کی جھریاں قدرے کم ہو گئیں۔ " چلو یہ اچھا ہو گیا۔ اس سے پہلے کہ اس کمرے میں کوئی اور بلا قابض ہو جائے اس کی محرابوں میں اینٹیں چنوا دینا ہی بہتر ہے۔ سنو وہ ساری کتابیں اٹھا کر ایک پوٹلی بناؤ اور ردی والے کو دے آؤ۔ محرابیں بھرنے کے بعد ان کا بوجھ اب میں کہاں اٹھاتی پھروں گی؟ چلو شاباش یہ سب کام جلدی سے کر دو۔ اور ہاں! یہ لو تمہارا انعام " ۔۔۔۔۔۔ یہ کہہ کر فوزیہ نے اپنی مٹھی میں دبا ایک سو کا نوٹ لڑکے کو دے دیا۔
" نہ جانے کب سوئے گا یہ بُڈھا۔ کتنی بار کہا ہے روشنی جلدی بُھجا دیا کریں بچے ٹھیک سے سو نہیں پاتے۔ مگر میری اس گھر میں سنتا ہی کون ہے " ۔۔۔۔۔۔۔ فوزیہ زیرِ لب الجھی سی بڑبڑائے جا رہی تھی۔
" سو جاؤ اب، یوں تمہارے کسمسانے سے ابو لائٹ بند نہیں کرنے والے۔ برسوں سے اس وقت وہ پابندی سے پڑھائی کرتے آ رہے ہیں۔ " یاسر اس کی بڑبڑاہٹ سن کر آنکھیں بند کیئے ہی بولا ۔۔۔۔۔۔ لان میں ٹڈوں نے بھی شور برپا کر رکھا تھا۔
" ہُنہہ! ساری زندگی ہو گئی پڑھتے اب اور کتنا پڑھیں گے؟ " لہجے میں خفگی تھی ۔۔۔۔۔ " ابو کا غصہ مجھ پر کیوں اتار رہی ہو؟ خود ہی پوچھ لو ان سے جا کر " ۔۔۔۔۔ یاسر کے جواب کے بعد کمرے میں خاموشی رہی۔ لان کے پار اس پرانے کمرے کی خستہ دیواروں میں محرابیں بنی تھیں جو کتابوں سے بھری پڑی تھیں۔ کونے میں پڑی مسہری پر بیٹھا ایک ضعیف عمر شخص موٹی سی کتاب میں گم تھا۔ بدن میں نقاہت کے سبب خفیف سی کپکپی جاری تھی۔ وقفے وقفے سے کھانسی کا دور چلتا تو کچھ دیرکے لیئے چھت کی طرف منہ کر کے لمبی لمبی سانسیں لینے لگتا۔ پانی کا گھونٹ بھرتا اور پھر عینک سنبھالے کتاب میں گم ہو جاتا۔
پھر کچھ دن بعد وہ ادھیڑ عمر شخص وفات پا گیا۔ صحن میں میت پڑی تھی اور لوگ افسوس کرنے کے لیئے جمع ہو رہے تھے۔ یاسر تعزیت کرنے والوں سے ملنے کے علاوہ دوسرے انتظامات کرنے میں بھی مصروف تھا۔ فوزیہ بھی عقبی لان میں افسوس کرنے والی خؤاتین کو نپٹا رہی تھی۔ وقفے وقفے سے جب اس کی نگاہ اس پرانے کمرے کی طرف اٹھتی تو وہ کسی سوچ میں گم جاتی۔ اچانک اس کی نظر ایک کم عمر لڑکے پر پڑی تو اس نے جلدی سے اسے ایک طرف کر کے بے چینی سے پوچھا " مستری چاچا ملے؟ کیا کہتے ہیں کب اآئیں گے؟ " ۔۔۔۔۔۔ " جی خالہ چاچا کہہ رہے تھے کہ میت اٹھنے کے کچھ دیر بعد میں پہنچ جاؤں گا۔ آپ فکر نہ کریں " لڑکے کا جواب سن کر فوزیہ کے ماتھے کی جھریاں قدرے کم ہو گئیں۔ " چلو یہ اچھا ہو گیا۔ اس سے پہلے کہ اس کمرے میں کوئی اور بلا قابض ہو جائے اس کی محرابوں میں اینٹیں چنوا دینا ہی بہتر ہے۔ سنو وہ ساری کتابیں اٹھا کر ایک پوٹلی بناؤ اور ردی والے کو دے آؤ۔ محرابیں بھرنے کے بعد ان کا بوجھ اب میں کہاں اٹھاتی پھروں گی؟ چلو شاباش یہ سب کام جلدی سے کر دو۔ اور ہاں! یہ لو تمہارا انعام " ۔۔۔۔۔۔ یہ کہہ کر فوزیہ نے اپنی مٹھی میں دبا ایک سو کا نوٹ لڑکے کو دے دیا۔
آخری تدوین: