مقبول احمد سلفی
محفلین
محرم الحرام میں شادی کرنے کا شرعی حکم
مقبول احمد سلفی
عوامی سطح پر یہ بات مشہور ہوگئی ہے کہ محرم کے مہینے میں شادی کرنا جائز نہیں ہے بلکہ یہ تصور کیا جاتا ہے کہ اس ماہ کی شادی بے برکتی اور مصائب وآلام کا سبب ہے ۔
چونکہ اس ماہ میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی اس وجہ سے ان کی شہادت کا ماتم اور برسی منائی جاتی ہے اور ماتم کی حالت میں خوشی کا اظہار کرنا صحیح نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے ایک خاص طبقہ میں محرم میں عدم نکاح کا تصور عام ہے ۔ ہم یہاں دیکھتے ہیں کہ اسلام میں کسی شہادت یا موت پہ ماتم کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب جان لینے سے محرم میں شادی کرنے کی شرعی حیثیت کا علم ہوجائے گا۔
کوئی بھی انسان ایسا نہیں ہے جس کو موت نہیں آئے گی ۔ ہر شخص کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔ آدم علیہ السلام سے لیکر آج تک یہ کائنات زندگی اور موت کا نظارہ دیکھ رہی ہے ۔ سال کا کوئی ایسا دن نہیں ہوگا جن دن کسی کی موت نہیں آئی ہو۔ اگرکسی کی وفات پہ ماتم کرنا جائز ہوتا تو سال بھر ماتم کا ماحول ہوتا۔ انسان کبھی خوشی کا منہ نہیں دیکھ پاتا ۔
محمد بن سیرین سے روایت ہے کہ :
تُوفِّيَ ابنٌ لأمِّ عطيةَ رَضِيَ اللهُ عنها ، فلمَّا كان اليومُ الثالثُ ، دعت بصُفْرَةٍ فتمسحتْ بهِ ، وقالت : نُهِينا أن نُحِدَّ أكثرَ من ثلاثٍ إلَّا بزوجٍ .(صحيح البخاري:1297)
ترجمہ: ام عطیہ رضی اللہ عنہا کے ایک بیٹے کا انتقال ہوگیا۔ انتقال کے تیسرے دن انہوں نے صفرہ خلوق ( ایک قسم کی زرد خوشبو ) منگوائی اور اسے اپنے بدن پر لگایا اور فرمایا کہ خاوند کے سوا کسی دوسرے پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنے سے ہمیں منع کیا گیا ہے۔
بخاری شریف کی اس روایت میں سوگ کا ذکر ہے کہ کسی کا کوئی رشتہ دار وفات پاجائے تو تین دن سوگ منائے اس سے زیادہ نہیں ۔
یہ سوگ بھی وفات کے وقت ہی منانا ہے ، ہرسال منانا بدعت کہلائے گا۔ اس حدیث میں یہ بھی ذکر ہے کہ صحابیہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا جن کا بیٹا انتقال ہوا تھا وفات کے تیسرے دن خوشبو استعمال کرتی ہیں تاکہ لوگ بھی جان لے کہ اب سوگ ختم ہوگیا۔ اگر کسی کا رشتہ دار ماہ محرم میں وفات پاجائے تو محرم میں صرف تین دن سوگ منائے اور بقیہ دن کوئی سوگ نہیں ۔
سوگ اور ماتم ونوحہ دونوں میں فرق ہے سوگ تین دن عام رشتہ دار پر اور چار مہینہ دس دن بیوی پر منانا جائز ہے جبکہ ماتم و نوحہ کسی بھی وقت خواہ موت ہوئی ہو یا شہادت ہوئی ہو جائز نہیں ہے ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
ليس مِنَّا من ضربَ الخدودَ ، وشَقَّ الجيوبَ ، ودعا بدَعْوَى الجاهليَّةِ .(صحيح البخاري:1297)
ترجمہ: جس نے منہ پیٹا ،گریبان چاک کیا اور دور جاہیلت کی پکار لگائی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت آج سے تقریبا ہزارسال سے بھی پہلے سن 61 ہجری میں ہوئی ۔ اس شہادت کا سال در سال غم منانا بدعت ہے ۔
جیساکہ میں نے اوپر ذکر کیا کہ سال کا کوئی ایسا دن نہیں کہ اس میں کسی نہ کسی آدمی کی وفات ہوئی ہو۔ یہاں دن کا احاطہ کرنا مشکل ہے، مہینہ کے حساب سے چند بلند مقام ہستی کی وفات وشہادت کا ذکر کرتاہوں ۔
محرم الحرام : ایک محرم کو سیدنا عمررضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی ۔
صفر: اس ماہ مین حسن بن علی کا انتقال اور بئر معونہ پر کئی صحابہ کی شہادت ہوئی۔
ربیع الاول :اس میں نبی ﷺ کی وفات ، حضرت معاذ بن جبل اور ام المومونین زینب بنت جحش کا انتقال ہوا۔
ربیع الآخر : اس میں عبدالقادر جیلانی کی وفات ہوئی ( اسى ماہ میں ان کا عرس منایا جاتا ہے جوکہ سوگ کے برخلاف عمل ہے)، عہد فاروقی میں ایرانیوں کے خلاف تقریبا تیس ہزار مسلمانوں کی شہادت ہوئی۔
جمادی الاول : حضرت ابوبکر کا انتقال , حضرت سراقہ بن عمرورضی اللہ عنہ اور حضرت عبادہ بن قیس رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی۔
جمادی الآخر : فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔
رجب: امیر معاویہ رضی اللہ عنہ، سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ،اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی وفات
شعبان: ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور بنت رسول ﷺ حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا انتقال
رمضان:21 رمضان کوعلی رضی اللہ عنہ کی شہادت
شوال: سید الشہداء سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت
ذو قعدہ : ایک روایت کے مطابق زوجہ رسول ﷺ حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال اس ماہ میں ہوا۔اس میں مشہور تابعی مسلمہ بن مخلد کا انتقال ہوا۔
ذو الحجہ : حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی وفات اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت
مذکورہ بالا فہرست ماہ وفات سے پتہ چلتا ہے کہ اگر وفات یا شہادت پر غم منانا جائز کہہ دیا جائے شادی تو درکنار انسان کبھی خوشی کا منہ نہیں دیکھ پائے گا ۔صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ اسلام میں خوشی کے اظہار کے لئے دو دن سالہ عید کے طور پر متعین ہے ۔ جمعہ بھی عید کے ایام میں سے ہے جو ہرہفتہ آیا کرتا ہے ۔ ان ایام عیدمیں بھی بڑے بڑے لوگوں کی وفات اور شہادت ہوئی ہے تو کیا عید کے دن بھی خوشی چھوڑ کے غم منایا جائے اور اگر اسے ہرسال متعین کرلیتے ہیں تو تاریخ اسلام سے عید کا تصور ہی مٹ جائے گا۔
اللہ نے ہمیں جودین دیا ہے اس میں اعتدال وتوازن کے ساتھ شرعی حدود میں رہ کر زندگی سے لطف اندوزی کا موقع بھی فراہم کیا گیاہے ۔
اب دیکھتے ہیں کیا اس ماہ میں اسلاف نے شادی نہیں کی ؟
حقیقت میں کسی ماہ میں شادی کرنا ممنوع نہیں ہے اگر کسی ماہ میں شادی کرنا منع ہوتا تو نبی ﷺ ضرور ہمیں رہنمائی فرمادیتے مگر آپ ﷺ سے ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔ہمیشہ سے لوگ اس ماہ میں شادی کرتے چلے آرہے ہیں ۔غلط فہمی اس وقت سے پیدا ہوئی جب واقعہ کربلا ہوا اور شیعہ نے اپنی طبیعت سے اس ماہ میں ماتم کرنے ، سوگ منانے اور خوشی کا اظہارنہ کرنے ، شادی بیاہ سے پرہیز کرنے کا تصور سماج میں پھیلایا۔ اگر کربلہ کی وجہ سے محرم میں شادی منع ہوسکتی ہے تو صفر سے لیکر ذوالحجہ تک بھی کسی کی شادی نہیں ہوسکتی کیونکہ ان ماہ میں بھی بڑے بڑے لوگ وفات پائے اور شہادت ہوئی ۔
گوکہ اس میں اختلاف ہے مگر تاریخ طبری اور تاریخ ابن عساکر کی روشنی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے اسی ماہ میں شادی ہوئی ۔ ان کے علاوہ بھی بہت سی شادیاں ہوئی ہیں اور قیامت تک ہوتی رہیں گی ۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں محرم چارحرمت والے مہینے میں سے ایک ہے جس میں فتنہ وفساد سے بچنا ہے اور نیک وصالح عمل انجام دینا ہے خصوصا اس ماہ میں روزے کا بہت زیادہ اجر وثواب ہے ۔ان باتوں کا یہ مطلب ہواکہ ماتم وسوگ اس ماہ کی حرمت وتقدس کے بالکل خلاف ہے ۔
ایک اہم نقطہ :
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبيلِ اللّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاء وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَ } (سورة البقرة :154).
ترجمہ: جولوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو جائیں انہیں مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم شعور نہیں رکھتے ۔
قرآن کی اس آیت سے بریلویوں کا استدلال ہے کہ شہید کو موت نہیں آتی وہ دنیاوی زندگی کی طرح زندہ ہیں بلکہ تمام میت کے بارے میں ان کا عام عقیدہ ہے کہ میت سب کچھ سنتے ہیں ، جواب دیتے ہیں اور لوگوں کی مدد کرتے ہیں ۔ہم اہل حدیث انہیں صدیوں سے سمجھاتے آرہے کہ اس دنیا سے سب کو جانا ہے یعنی سب کو موت آنی ہے ۔ یہاں سے مر کر جو جاتے ہیں انہیں دنیاوی زندگی نہیں برزخ کی زندگی ملتی ہے جس کے بارے میں ہمیں کچھ شعور نہیں۔
تعجب ہے فاسد عقیدہ بریلویوں پر ایک طرف میت کو اور شہید کو بالکل دنیا کی طرح زندہ سمجھتے ہیں اوردوسری طرف ان کا ماتم بھی مناتے ہیں ؟ آخر ماجرا کیا ہے ؟
غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ سارا معاملہ پیسہ کمانے کا ہے اگر میت کو میت (مردہ ) قرار دے تو کون مزار پہ آئے گااور کہاں سے نذرانہ اور جعلی دھندوں کی فیس ملے گی ؟
بریلوی مذہب کے بانی اس ماہ میں شادی کے متعلق کیا کہتے ہیں ملاحظہ فرمائیں۔
مسئلہ کیا فرماتے ہیں مسائل ذیل میں ؟
(١)بعض اہل سنت و جماعت عشرہ محرم میں نہ تو دن بھر روٹی پکاتے ہیں اور نہ جھاڑو دیتے ہیں کہتے ہیں بعد دفن روٹی پکائی جائے گی۔
(٢)ان دس دنوںمیں کپڑے نہیں اتارتے ۔
(٣) ماہ محرم میں کوئی شادی بیاہ نہیں کرتے۔
الجواب:تینوں باتیں سوگ حرام ہیں ۔(احکام شریعت)
ساری باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ محرم میں شادی کرنا جائز ہے اور اس ماہ کی شادی سے بدفالی لینا ضعیف الاعتقادی ہے ، ہم مسلمانوں کو اللہ کے دین واحکام پہ راضی ہونا چاہئے اور اسلامی تعلیمات کے عین مطابق زندگی گذارنا چاہئے ۔