حسان خان
لائبریرین
جب لشکرِ شفق کے جلاتی ہوئی خیام
کرتی جنودِ مہرِ درخشاں کا قتلِ عام
پہنچی فصیلِ شہرِ افق پر سپاہِ شام
اٹھی مری نگاہ تو بالائے سقف و بام
چاروں طرف سے ابرِ سیہ میں گھرا ہوا
سر کو جھکائے اک مہِ نو تھا کھڑا ہوا
زنداں میں جس طرح کوئی کمسن پری جمال
محزوں، کبیدہ خاطر و خائف، پریشاں حال
تنہا، اداس، مُہر بلب، ناتواں، نڈھال
تصویرِ غم، شبیہِ الم، پیکرِ ملال
کہنے کو عرفِ عام میں جلوہ فروش تھا
لیکن اُسے کسی کا نہ خود اپنا ہوش تھا
دھندلا سا اک نشان کہ اک خطِّ مُنحنی
اتنا نحیف و زار کہ مشکل سے دیدنی
جیسے غبارِ راہ میں ہیرے کی اک کنی
یا پھر چراغِ خانۂ مفلس کی روشنی
مطلب نہیں ہے جس کو کسی اور کام سے
احساسِ تیرگی کو بڑھاتی ہے شام سے
قصرِ شہی میں بندۂ مزدور کی طرح
دشتِ بلا میں رہروِ مجبور کی طرح
بالائے دار حضرتِ منصور کی طرح
نقد و متاعِ دیدۂ رنجور کی طرح
حزن و ملال و یاس کا مظہر کہیں جسے
اک قطرہ آبِ تلخ، سمندر کہیں جسے
آنسو کہ چشمِ غم سے ابھی ناچکیدہ ہو
آہو کہ زخم خوردہ و صیاد دیدہ ہو
اک نالۂ رسا کہ ابھی ناکشیدہ ہو
یا اک غریبِ شہر کہ مردم گزیدہ ہو
منہ اپنا فرطِ خوف سے جو کھولتا نہیں
واقف ہے قتلِ گل سے مگر بولتا نہیں
لوگو! اگر کشاکشِ راز و نیاز سے
آوارگیِ کوچۂ زلفِ دراز سے
نظارۂ شگفتنِ گلہائے ناز سے
فرصت ملے تو اک نگہِ نیم باز سے
دیکھو اسے جو دیدۂ عبرت پسند ہو
سوچو یہ کون ہے؟ جو دلِ دردمند ہو
مجھ سے جو پوچھتے ہو عزیزانِ ہوشمند
مِجمَر اگر فلک ہے تو یہ دانۂ سپند
وہ اک شبِ سیاہ تو یہ شمعِ خود گزند
یا مقتلِ حیات و دلِ معرکہ پسند
گردوں پہ مرتسم جو نشانِ سوال ہے
میرے لیے کلیدِ طلسمِ خیال ہے
دل سے مرے یہ چشمِ تصور ہے کہہ رہی
لا کر دیارِ خلد سے جبریل نے ابھی
بامِ حرم پہ یا بہ سرِ گنبدِ نبی
لہرا دیا ہے پرچمِ دینِ محمدی
موجود یا کلیم سرِ کوہِ طور ہیں
فاراں پہ جیسے جلوہ نما خود حضور ہیں
جنگِ حنین کا ہے مرے سامنے سماں
نرغے میں کافروں کے گھرے شاہِ دو جہاں
بے خوف و بے ہراس مگر ان کے درمیاں
تیغہ بلند سر سے کیے سوئے آسماں
اعلان کر رہے ہیں کہ صادق بیاں ہوں میں
فرزندِ مُطّلِب ہوں، رسولِ زماں ہوں میں
بیرُالالم میں ظلم کی بستی اجاڑ کر
بدر و احد میں کفر کا حلیہ بگاڑ کر
خندق میں ایک دیوِ زمیں کو پچھاڑ کر
یا پھر ابھی ابھی درِ خیبر اکھاڑ کر
ایک ہیبت و جلال کا پیکر بنے ہوئے
رن میں کھڑے ہیں حیدرِ صفدر تنے ہوئے
یا ساحلِ فرات پہ وہ مردِ تشنہ کام
وہ دشمنِ ملوکیت و حامئِ عوام
وہ قائدِ خواص، وہ جمہور کا امام
وہ داعیِ خلافتِ منہاج، نیک نام
تصویر بن گیا ہے نفیرِ بلال کی
حکمِ جہاد و اذنِ جدال و قتال کی
یہ چاند اس شہید کی ہے تیغِ آبدار
مقتل میں جس نے جا کے کہا تھا کہ زینہار
دیں سے جدا نہیں ہے سیاست کا کاروبار
اور اس نظامِ خیر میں حقدارِ اقتدار
زاہد ہیں، متقی ہیں، کوئی دوسرا نہیں
اسلام میں حکومتِ فاسق روا نہیں
ملت کے قافلے کا بنے وہ ہی راہبر
ہر طرح قول و فعل سے جو مرد خوش سِیَر
زیرک ہو، باشعور ہو اور صاحبِ نظر
سچا ہو، بے غرض ہو، الوالعزم اور نڈر
سادہ ہو، خوش مزاج ہو اور خاکسار ہو
منجملۂ عوام ہو اور دین دار ہو
جائز نہیں کہ ہم میں بنے کوئی بادشاہ
میرے کہے پہ ہو جو تمہیں کوئی اشتباہ
ڈالو رسولِ پاک کی سیرت پہ اک نگاہ
دیکھو کہ ان کا طرزِ حکومت ہے خود گواہ
اسلام ہر طرح سے عوامی نظام ہے
اور پیرویِ قیصر و کسریٰ حرام ہے
لوگو! یزید ہو کہ کوئی اور خیرہ سر
ظلم و ستم، فریب سے جو بن کے تاجور
اور چھین کر خزانۂ ملی کا مال و زر
کرتا ہے خرچ بدعت و فسق و فجور پر
وہ امتیِ صاحبِ قرآن ہی نہیں
کہتا ہوں صاف صاف مسلمان ہی نہیں
تم چاہتے ہو چھوڑ کے اسلام کے اصول
میں بھی تمہاری طرح سے اک حاکمِ فضول
اور دشمنِ عوام کی بیعت کروں قبول
سن لو یہ کان کھول کے فرمودۂ رسول
خارج ہے اس کا نام ہماری کتاب سے
جس کو زنا کا شوق ہو رغبت شراب سے
میں ہوں حسین ابنِ علی جانتے ہو تم
جانِ بتول و سبطِ نبی جانتے ہو تم
اور کون ہے یزیدِ شقی جانتے ہو تم
نیکی کدھر، کدھر ہے بدی جانتے ہو تم
مومن اگر ہو آؤ مری پیروی کرو
ورنہ سروں میں جو ہے سمائی وہی کرو
نوکر ہو، مانتا ہوں، مگر نوکری میں بھی
اچھے برے کا فرق اصولاً ہے لازمی
روٹی پہ روٹی رکھ کے وہی کھائے آدمی
نیکی کا جو صلہ ہو، کمائی حلال کی
جس نوکری کا ظلم و ستم پر قیام ہے
وہ نوکری غلط ہے، وہ روزی حرام ہے
یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس خاکسار کے
خیرالبشر کی ذات سے رشتے ہیں پیار کے
آ کر کہے سنے میں کسی نابکار کے
افسوس چاہتے ہو مرا سر اتار کے
اک سیم و زر کا ڈھیر ملے، ملکِ رے ملے
کہتے ہیں جس کو شہد، وہ مکھی کی قے ملے
لوگو! بتاؤ آج وہ قارون ہے کہاں؟
دولت پہ تھا گھمنڈ جسے، مال پر گماں
لازم نہیں عیاں کا بیاں بس کہ یہ جہاں
ہے کارواں سرائے فقط جس کے درمیاں
اک رات کا پڑاؤ ہے پھر چل چلاؤ ہے
یہ زندگی بہت ہے تو کاغذ کی ناؤ ہے
حجّت ہوئی تمام جو کہنا تھا کہہ دیا
اور آسماں گواہ کہ تم سب نے سن لیا
یہ فرضِ منصبی تھا مرا ورنہ اشقیا
میں جانتا ہوں کون ہو تم، چاہتے ہو کیا
حد درجہ بے ضمیر، سراپا برائی ہو
قاتل ہو تم کرائے کے، یوسف کے بھائی ہو
اس مردِ حق کی سن کے یہ تقریرِ دلپذیر
ممکن نہ تھا جواب، کھڑے چپ تھے بے ضمیر
لیکن وہاں پہ جمع تھے پہنچے ہوئے شریر
گردن پہ اُس کی تاک کے مارا کسی نے تیر
اور اُس نے کھینچ کر جسے خود ہی نکالا تھا
پھر چلوؤں میں بھر کے لہو کو اچھالا تھا
اک زخم خوردہ شیر کی مانند لوٹ کر
گرجا تھا شامیوں پہ کہ اے حامیانِ شر
جب تک تنِ عزیز سے کٹتا نہیں ہے سر
مومن اگر ہے مرد وہ تنہا سہی مگر
لڑتا ہے بے دریغ ہجومِ سپاہ سے
جیسے چراغِ خانہ شبِ روسیاہ سے
دشتِ وغا میں یکہ و تنہا وہ شہسوار
زخموں سے چور جیسے کوئی نخلِ پُربہار
کھینچے مگر نیام سے شمشیرِ آبدار
مقتل میں نعرہ زن تھا کہ ہے کوئی نابکار
بابِ نبرد میں جو مری طرح فرد ہو
تلوار کا دھنی ہو، بہادر ہو، مرد ہو
ایسا جری کہ دید نہ جس کی شنید ہے
یہ چاند ہاں اسی کی مجسم نشید ہے
وابستہ جس سے باخبرو یہ نوید ہے
'قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے'
لازم ہے جس طرح سے خبر مبتدا کے بعد
'اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد'
اس چاند کی مثال کروں اور کیا رقم
بس دیکھنے کو جس کے اٹھائی تھی چشمِ نم
اک تیرِ غم چلا کہ چلا خنجرِ الم
دل سے کہا نگاہ نے اللہ کی قسم
برچھا پڑا ہے یہ کسی نوعمر شیر کا
ننھا سا نیمچہ کسی ننھے دلیر کا
یہ چاند ہے کہ چاک کسی پیرہن کا ہے
لوگو! دہانِ زخم کسی گل بدن کا ہے
پنجہ مڑا ہوا علمِ پنجتن کا ہے
بازو کٹا ہوا کسی شمشیر زن کا ہے
یا پھر کسی جری کی یہ ٹوٹی کمان ہے
شاید یہ ذوالجناح کے سُم کا نشان ہے
یا فرطِ غم سے دیدۂ خوں بار کی طرح
طاقِ لحد پہ شمعِ خود آزار کی طرح
زنداں میں ایک روزنِ دیوار کی طرح
دشتِ بلا میں عابدِ بیمار کی طرح
کمسن ہے، خوبرو ہے، مگر ماند ماند ہے
اے دوستو! یہ ماہِ محرم کا چاند ہے
بعد از قتال یا سرِ میدانِ کربلا
پھیلا ہوا ہے شامِ غریباں کا جھٹپٹا
اپنا پرایا کوئی نہیں، جب بجز ہوا
تنہا کھڑی ہیں خواہرِ شبیر بے ردا
بکھرائے بال، شرم کی ماری، ڈری ہوئی
شبّانِ آلِ سبطِ پیمبر بنی ہوئی
یا دست و سر بریدہ لہو میں بھری ہوئی
اس درجہ زخم زخم کہ چھلنی بنی ہوئی
روندی ہوئی جفاؤں سے پامال کی ہوئی
بے گور و بے کفن سرِ مقتل پڑی ہوئی
دیکھو دلِ بتول کی یہ ایک قاش ہے
لوگو حسین ابنِ علی کی یہ لاش ہے
رحمٰن کہہ رہی ہے قلم کی صریر، بس!
اے راقمِ حکایتِ ذبحِ کبیر، بس!
شہرِ نوا کے مردِ حقیر و فقیر، بس!
اے خوشہ چینِ باغِ انیس و دبیر، بس!
مانا کہ ذکرِ گل سے ترا دل بھرا نہیں
لیکن فزوں زِ تابِ شنیدن روا نہیں
(رحمٰن کیانی)