خورشیداحمدخورشید
محفلین
میں ایک سیلف میڈ آدمی ہوں یعنی باپ دادا کی طرف سے ورثے میں صرف د و چیزیں ملیں پہلی تربیت اور دوسری اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی آزادی۔ بچپن اور لڑکپن غربت میں گذرا لیکن والدین کی تربیت تھی یا قدرت کا انعام کہ کبھی بھی زندگی سے مایوس نہیں ہوا۔ آگے بڑھنے کا جذبہ قائم رہا۔ بظاہر وسائل نہ ہوتے ہوئے بھی اچھے سکول کالج اور یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔زندگی میں وسائل کی کمی کی وجہ سے پیچھے رہ جانے کا رونا رونے والوں کو میں نہیں سمجھا سکتا کہ یہ کیسے ہوا۔
عملی زندگی کے آغاز میں ہی میں غربت کے نچلے درجے سے نکل کر مڈل کلاس میں شامل ہوگیا۔اس وقت زندگی کی وہ تمام آسائشیں میرے پاس موجود ہیں جو ایک مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے انسان کے پاس ہو سکتی ہیں۔زندگی کے اس مقام پر اگر میں اب تک کی زندگی کا تجزیہ کروں تو میں آسائشوں والی زندگی اور آسائشوں سے محرومی والی زندگی کا موازنہ کرسکتا ہوں۔ جو یہ ہے:
کیا محرومی بھی کبھی لذت کا باعث ہوسکتی ہے؟ میرا جواب ہے ہاں ۔ بلکہ بہت زیادہ لذت اور خوشی کا باعث ہو سکتی ہے۔ اس کا اندازہ آپ نیچے دی گئی مثالوں سے کرسکتے ہیں۔
کئی دنوں سے بھوکے شخص کو جب گرم روٹی میسر آتی ہے تو روٹی کھانے کی جو لذت وہ محسوس کرتا ہے وہ لذت ہمیشہ سے پیٹ بھر کرانواع و اقسام کے پکوان کھانے والے کو کبھی محسوس نہیں ہوتی اور وہ اکثر اوقات بھوک نہ ہونے کی وجہ سے اچھے بھلے کھانے کی بے لذتی کی شکایت کرتے ہوئے کفرانِ نعمت کا مرتکب ہوتا نظر آتا ہے۔
لق و دق صحرا میں پانی کے بغیر سفر کرتے ہوئے کسی کو جب گھنی چھاؤں والے درخت اور ٹھنڈےپانی کا چشمہ مل جائے تو اس کی خوشی کا وہ شخص اندازہ بھی نہیں کر سکتا جس کو ہر وقت ائرکنڈیشنڈ ماحول اور طرح طرح کے مشروبات میسر ہوں۔بلکہ وہ ناشکری کرتے ہوئے پرسکون ماحول کی تلاش میں نظر آئے گا۔
ایک مزدور سخت محنت مشقت کے بعد رات کو ٹوٹی ہوئی چارپائی پر ہر طرح کی دنیاوی نعمتوں سے محروم اپنے چھوٹے سے گھر میں ایسی سکون کی نیند سوتاہے جو دنیاوی نعمتوں سے بھرے گھر میں کسی شخص کو نرم ملائم بستر پر بھی نصیب نہیں ہوتی۔
ایک غریب شخص جب کافی عرصہ بچت کرنے کے بعد ایک نئی بائیسکل خرید کر گھر میں لاتا ہے تو اس کی خوشی کا وہ شخص تصور بھی نہیں کرسکتا جسے ہر وقت لگژری گاڑیاں اور ہوئی جہاز سفر کے لیے میسر ہوں۔
اسی طرح آنکھوں سے محروم کسی شخص کو بینائی میسر آجائے تو اس کی خوشی کا اندازہ ہمیشہ سے بینا شخص لگا ہی نہیں سکتا۔
غرضیکہ کسی بھی نعمت سے محرومی کے بعد اس نعمت کے میسر آنے پر جو خوشی اور لذت ملتی ہے ، ہمیشہ سے نعمتوں سے فیضیاب ہونے والا شخص اس خوشی اور لذت سے ہمیشہ محروم رہتا ہے۔
سبق:۔
دنیاوی نعمتوں سے محروم نظر آنے والے لوگ ہمیشہ خوشیوں اور لذتوں سے محروم نہیں ہوتے۔ بلکہ اکثراوقات وہ ایسی خوشیاں اور لذتیں پاتے ہیں جو دنیاوی نعمتوں سے مالامال لوگوں کو زندگی بھر نہیں ملتیں۔حالانکہ یہ خوشیاں بظاہر بہت چھوٹی چھوٹی ہوتی ہیں۔
ا گر انسان کی سوچ مثبت ہو توکسی نعمت سے محرومی اس کو زندگی میں جدوجہد پر ابھارتی ہے اور جینے کی امنگ پیدا کرتی ہے۔
اگر انسان کی سوچ منفی ہو تو محرومی اس میں مایوسی اور دوسروں سے حسد اور نفرت پیدا کرتی ہے ۔
اگردنیاوی نعمتیں حاصل کرکے کوئی شخص زندگی پر جمود طاری کرلے کہ بس اب میرے کرنے کے لیے کچھ نہیں رہا تو اس کی زندگی بے کیفی کا شکار ہو جاتی ہے۔
نوٹ:۔ یہ تحریرصرف ایک مشاہدہ یا تجزیہ ہے ۔ یہ محرومی کے حق میں دلائل نہیں ہیں۔
عملی زندگی کے آغاز میں ہی میں غربت کے نچلے درجے سے نکل کر مڈل کلاس میں شامل ہوگیا۔اس وقت زندگی کی وہ تمام آسائشیں میرے پاس موجود ہیں جو ایک مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے انسان کے پاس ہو سکتی ہیں۔زندگی کے اس مقام پر اگر میں اب تک کی زندگی کا تجزیہ کروں تو میں آسائشوں والی زندگی اور آسائشوں سے محرومی والی زندگی کا موازنہ کرسکتا ہوں۔ جو یہ ہے:
کیا محرومی بھی کبھی لذت کا باعث ہوسکتی ہے؟ میرا جواب ہے ہاں ۔ بلکہ بہت زیادہ لذت اور خوشی کا باعث ہو سکتی ہے۔ اس کا اندازہ آپ نیچے دی گئی مثالوں سے کرسکتے ہیں۔
کئی دنوں سے بھوکے شخص کو جب گرم روٹی میسر آتی ہے تو روٹی کھانے کی جو لذت وہ محسوس کرتا ہے وہ لذت ہمیشہ سے پیٹ بھر کرانواع و اقسام کے پکوان کھانے والے کو کبھی محسوس نہیں ہوتی اور وہ اکثر اوقات بھوک نہ ہونے کی وجہ سے اچھے بھلے کھانے کی بے لذتی کی شکایت کرتے ہوئے کفرانِ نعمت کا مرتکب ہوتا نظر آتا ہے۔
لق و دق صحرا میں پانی کے بغیر سفر کرتے ہوئے کسی کو جب گھنی چھاؤں والے درخت اور ٹھنڈےپانی کا چشمہ مل جائے تو اس کی خوشی کا وہ شخص اندازہ بھی نہیں کر سکتا جس کو ہر وقت ائرکنڈیشنڈ ماحول اور طرح طرح کے مشروبات میسر ہوں۔بلکہ وہ ناشکری کرتے ہوئے پرسکون ماحول کی تلاش میں نظر آئے گا۔
ایک مزدور سخت محنت مشقت کے بعد رات کو ٹوٹی ہوئی چارپائی پر ہر طرح کی دنیاوی نعمتوں سے محروم اپنے چھوٹے سے گھر میں ایسی سکون کی نیند سوتاہے جو دنیاوی نعمتوں سے بھرے گھر میں کسی شخص کو نرم ملائم بستر پر بھی نصیب نہیں ہوتی۔
ایک غریب شخص جب کافی عرصہ بچت کرنے کے بعد ایک نئی بائیسکل خرید کر گھر میں لاتا ہے تو اس کی خوشی کا وہ شخص تصور بھی نہیں کرسکتا جسے ہر وقت لگژری گاڑیاں اور ہوئی جہاز سفر کے لیے میسر ہوں۔
اسی طرح آنکھوں سے محروم کسی شخص کو بینائی میسر آجائے تو اس کی خوشی کا اندازہ ہمیشہ سے بینا شخص لگا ہی نہیں سکتا۔
غرضیکہ کسی بھی نعمت سے محرومی کے بعد اس نعمت کے میسر آنے پر جو خوشی اور لذت ملتی ہے ، ہمیشہ سے نعمتوں سے فیضیاب ہونے والا شخص اس خوشی اور لذت سے ہمیشہ محروم رہتا ہے۔
سبق:۔
دنیاوی نعمتوں سے محروم نظر آنے والے لوگ ہمیشہ خوشیوں اور لذتوں سے محروم نہیں ہوتے۔ بلکہ اکثراوقات وہ ایسی خوشیاں اور لذتیں پاتے ہیں جو دنیاوی نعمتوں سے مالامال لوگوں کو زندگی بھر نہیں ملتیں۔حالانکہ یہ خوشیاں بظاہر بہت چھوٹی چھوٹی ہوتی ہیں۔
ا گر انسان کی سوچ مثبت ہو توکسی نعمت سے محرومی اس کو زندگی میں جدوجہد پر ابھارتی ہے اور جینے کی امنگ پیدا کرتی ہے۔
اگر انسان کی سوچ منفی ہو تو محرومی اس میں مایوسی اور دوسروں سے حسد اور نفرت پیدا کرتی ہے ۔
اگردنیاوی نعمتیں حاصل کرکے کوئی شخص زندگی پر جمود طاری کرلے کہ بس اب میرے کرنے کے لیے کچھ نہیں رہا تو اس کی زندگی بے کیفی کا شکار ہو جاتی ہے۔
نوٹ:۔ یہ تحریرصرف ایک مشاہدہ یا تجزیہ ہے ۔ یہ محرومی کے حق میں دلائل نہیں ہیں۔