فہد اشرف
محفلین
غزل
یاں کوئی شاخِ وفا پھولنے پھلنے سے رہی
شہرِ کوفہ کی روایت تو بدلنے سے رہی
میں ہوں اور وادئ غربت کا سفر ہے پیہم
اب کوئی روکے مری راہ بدلنے سے رہی
مختصر یہ کہ اسی طرح جھلستے رہیئے
ابر آنے سے رہا دھوپ بھی ڈھلنے سے رہی
کیسۂ زر سے سبھی بولتے منہ بند ہوئے
اب کسی منہ سے بھی حق بات نکلنے سے رہی
یہ بلا جائے گی نذرانہ سروں کا لے کر
کسی جادو کسی منتر سے تو ٹلنے سے رہی
کسی تدبیر سے گرماؤ دلوں کو ورنہ
درمیاں برف جو حائل ہے پگھلنے سے رہی
وہ زمیں بو گئے دشنہ و خنجر جس میں
وہ کوئی لعل و جواہر تو اگلنے سے رہی
محسن اس کو میں بہت جانتا پہچانتا ہوں
اس کے بارے میں مری رائے بدلنے سے رہی
(محسن زیدی)
' متاعِ آخرِشب' سے انتخاب
یاں کوئی شاخِ وفا پھولنے پھلنے سے رہی
شہرِ کوفہ کی روایت تو بدلنے سے رہی
میں ہوں اور وادئ غربت کا سفر ہے پیہم
اب کوئی روکے مری راہ بدلنے سے رہی
مختصر یہ کہ اسی طرح جھلستے رہیئے
ابر آنے سے رہا دھوپ بھی ڈھلنے سے رہی
کیسۂ زر سے سبھی بولتے منہ بند ہوئے
اب کسی منہ سے بھی حق بات نکلنے سے رہی
یہ بلا جائے گی نذرانہ سروں کا لے کر
کسی جادو کسی منتر سے تو ٹلنے سے رہی
کسی تدبیر سے گرماؤ دلوں کو ورنہ
درمیاں برف جو حائل ہے پگھلنے سے رہی
وہ زمیں بو گئے دشنہ و خنجر جس میں
وہ کوئی لعل و جواہر تو اگلنے سے رہی
محسن اس کو میں بہت جانتا پہچانتا ہوں
اس کے بارے میں مری رائے بدلنے سے رہی
(محسن زیدی)
' متاعِ آخرِشب' سے انتخاب