عبداللہ شاہ
محفلین
محسن نقوی دور حاضر کے نبض شناس شاعر
15جنوری1996ء کی شام بھی کیسی شام تھی کہ دور حاضر کے عظیم شاعر محسن نقوی کی شہادت نے اسے شب دیجور میں تبدیل کر دی۔نوید آزادی لے کر 5مئی 1947کو ڈیرہ غازی خان میں سید چراغ حسین کے ہاں آنکھیں کھولنے والے نامور شاعر غلام عباس محسن نقوی کو ہم سے بچھڑے 21سال بیت گئے۔ آپ عصر حاضر کے شعری دنیا کے بادشاہ سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن اہل بیت اطہارؑ سے آپ کی کمال محبت کے باعث غیروں نے اسے آپ کی کمزوری کے طور پر پیش کیا۔ اب بھی جتنی شہرت آپ کو ملنی چاہیے تھی اس کی عشر عشیر بھی آپ کو نہ مل سکی۔ کمال تخیل اور بلندی فکر آپ کا طرہ امتیاز ہے۔ آپ نے در اہل بیتؑ کی چوکھٹ پر اپنا وقت گزارنے کو خوبصورت محلوں میں زندگی گزارنے پر ترجیح دی۔ درخت فضیلت کی شاخوں پر چڑھ کر اہل بیت اطہار ؑکی مدح سرائی کرتے رہنا آپ کا شیوہ تھا۔ واقعہ کربلا کی جس انداز سے آپ نے منظر کشی کی ہے شاید عالم ارواح میں میر انیس و میرزا دبیر بھی اس پر آپ کو داد تحسین دے رہے ہوں۔ بہ الفاظ دیگر آپ کو عصر حاضر کا میرزا دبیر و میر انیس قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
رن ایک طرف چرخ کہن کانپ رہا ہے
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے(میرزا دبیر)
یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو آئے تھے مقتل کو سرخرو کرکے(محسن نقوی)
*ساتھ ہی دشمن اہل بیتؑ سے دلی بیزاری بھی آپ کے اشعار میں جگہ جگہ عیاں ہے۔ حاکم جور ضیاء الحق کے دور میں بھی آپ نے اپنی راہ و روش میں کوئی تبدیلی نہیں لائی۔ آپ ببانگ دہل ظلم کے خلاف ایک فی البدیہ شاعر کی حیثیت سے ظالموں کے دلوں کو چیرنے والے اشعار کہتے رہے۔ جس طرح معاشرتی مسائل کو ایک بہترین شاعر الفاظ کا جامہ پہناکر قارئین کی خدمت میں پیش کرسکتا ہے شاید ہی ایک بہت بڑے دانشور میں بھی اتنی مہارت پائی جاتی ہو۔ محسن نقوی جیسے شاعر صدیوں بعد خال خال ہی پیدا ہوتے ہیں۔عذاب دید، طلوع اشک، خیمہ جاں، رخت شب، فرات فکر، ریزہ حرف، موج ادراک، برگ صحرا اور بند قبا آپ کی مشہور کتابیں ہیں۔ آپ کے شعری دنیا میں کمال کااعتراف کرتے ہوئے1994میں حکومت پاکستان نے "صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی" سے بھی نوازا۔ محسن نقوی کی ایک ہم خصوصیت لوگوں کو قنوطیت سے بچانااور ان کے دلوں میں امید کی شمع جلائے رکھنا اور ظالم و جابر حکمرانوں کے سامنے ڈٹنے کا درس دینا بھی ہے:
جس کو طوفاں سے الجھنے کی ہو عادت محسنؔ
ایسی کشتی کو سمندر بھی دعا دیتاہے
جس معاشرے میں اچھے علما، بہترین دانشوروں اور معاشرے کے نبض شناس شاعروں کا کوئی احترام نہیں ہوتا،اور ان کی قدردانی نہیں کی جاتی، وہ معاشرہ کبھی بھی ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ یہی وہ افراد ہوتے ہیں جو معاشرے کے جسم میں روح کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی وہ افراد ہوتے ہیں جو تعداد میں کم ہونے کے باوجود اکثریت پر حاوی اور معاشرے کی شناخت ہوتے ہیں۔
جہاں تنگ نظر طالبانی اور داعشی فکر رکھنے والے تکفیریوں نے ہمارے عالموں، ڈاکٹروں، دانشوروں، مفکروں ... کو ہم سے چھین لیا ہے وہیں دنیائے شعر و ادب سے فکری بلندیوں کو چھونے والی، الفاظ کےانتخاب میں یکتائے روزگار، تنوع موضوعات میں ممتاز حیثیت کے حامل، ظالم و جابر حکمرانوں کے سامنے سینہ سپر ہوکر شجاعت حیدری کا مظاہرہ کرنے والی، معاشرتی ناانصافیوں کا سراغ لگا کر شعری روپ میں اسے ڈال کر ظلم استحصال کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے والی عظیم شخصیت محسن نقوی کو ہم سے چھین کر دنیائے شعروسخن میں خزاں کا سماں طاری کیا ہے۔ ان کو ہمارے درمیان سے گئے دو عشرے سے زیادہ وقت گزرجانے کے باوجود آج بھی ان کی یادیں ہمارے دلوں میں ترو تازہ ہیں اور ان کے درد بھرے اشعار آج بھی ہمارے دلوں کو ٹھنڈک پہنچا رہے ہیں۔ یوں ہم آج بھی محسن نقوی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتے دیکھ رہے ہیں:
عمر اتنی تو عطا کر میرے فن کو خالق
میرا دشمن میرے مرنے کی خبر کو ترسے
وہ مرنے کے بعد بھی اسم با مسمی محسن انسانیت ثابت ہو رہے ہیں۔ جبکہ ان کے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگنے والے والے اس وقت بھی بدنام زمانہ تھے اور آج بھی عام و خاص کے نزدیک منفور ہیں۔
جب تک ہمارے معاشرے سے تکفیری سوچ کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہوتا تب تک محسن نقوی جیسی برجستہ شخصیات سے ہم محروم ہوتے رہیں گے۔ لہذا ہم سب کو مل کر معاشرے میں محبت و بھائی چارے کے فروغ اور نفرت و دوری کے خاتمے کے لیے اور بالخصوص تکفیریت کے ناسور کی بیخ کنی کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارا دشمن باطل پر ہونے کے باوجود آپس میں متحد ہیں جبکہ ہم حق پر ہونے کے باوجود آپس میں دست بہ گریباں ہیں۔ یہی اس وقت مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ جب تک اس کمزوری کا علاج نہیں کیا جاتا تب تک مسلمانان عالم دن بہ دن زیر عتاب رہے گا۔ دشمن ہم سے ہماری اہم شخصیات اٹھاتے رہیں گے اور ہم کف افسوس ملتے رہ جائیں گے۔ لہذا وقت کا اہم تقاضا یہی ہے کہ تمام مسلمان اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں‛ جزوی اختلافات کو درخور اعتنا میں لائے بغیر مشترکات پر متحد ہو جائیں۔ تبھی ہم اپنی عظمت رفتہ کو دوبارہ بازیاب کراسکتے ہیں اور پوری دنیا میں سرخرو ہوسکتے ہیں۔ محسن نقوی نے تو شہادت کے ذریعے موت کا استقبال کرکے موت کو مات لگا دیے لیکن ہم ایک عہد ساز شاعر سے محروم ہوگئے۔ جس کا واضح ثبوت ان کے یہ اشعار ہیں:
لے زندگی کا خمس علیؑ کے غلام سے
اے موت! آضرور مگر احترام سے
عاشق ہوں گر ذرا بھی اذیت ہوئی مجھے
شکوہ کروں گا تیرا، میں اپنے امامؑ سے
15جنوری1996ء کی شام بھی کیسی شام تھی کہ دور حاضر کے عظیم شاعر محسن نقوی کی شہادت نے اسے شب دیجور میں تبدیل کر دی۔نوید آزادی لے کر 5مئی 1947کو ڈیرہ غازی خان میں سید چراغ حسین کے ہاں آنکھیں کھولنے والے نامور شاعر غلام عباس محسن نقوی کو ہم سے بچھڑے 21سال بیت گئے۔ آپ عصر حاضر کے شعری دنیا کے بادشاہ سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن اہل بیت اطہارؑ سے آپ کی کمال محبت کے باعث غیروں نے اسے آپ کی کمزوری کے طور پر پیش کیا۔ اب بھی جتنی شہرت آپ کو ملنی چاہیے تھی اس کی عشر عشیر بھی آپ کو نہ مل سکی۔ کمال تخیل اور بلندی فکر آپ کا طرہ امتیاز ہے۔ آپ نے در اہل بیتؑ کی چوکھٹ پر اپنا وقت گزارنے کو خوبصورت محلوں میں زندگی گزارنے پر ترجیح دی۔ درخت فضیلت کی شاخوں پر چڑھ کر اہل بیت اطہار ؑکی مدح سرائی کرتے رہنا آپ کا شیوہ تھا۔ واقعہ کربلا کی جس انداز سے آپ نے منظر کشی کی ہے شاید عالم ارواح میں میر انیس و میرزا دبیر بھی اس پر آپ کو داد تحسین دے رہے ہوں۔ بہ الفاظ دیگر آپ کو عصر حاضر کا میرزا دبیر و میر انیس قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
رن ایک طرف چرخ کہن کانپ رہا ہے
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے(میرزا دبیر)
یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو آئے تھے مقتل کو سرخرو کرکے(محسن نقوی)
*ساتھ ہی دشمن اہل بیتؑ سے دلی بیزاری بھی آپ کے اشعار میں جگہ جگہ عیاں ہے۔ حاکم جور ضیاء الحق کے دور میں بھی آپ نے اپنی راہ و روش میں کوئی تبدیلی نہیں لائی۔ آپ ببانگ دہل ظلم کے خلاف ایک فی البدیہ شاعر کی حیثیت سے ظالموں کے دلوں کو چیرنے والے اشعار کہتے رہے۔ جس طرح معاشرتی مسائل کو ایک بہترین شاعر الفاظ کا جامہ پہناکر قارئین کی خدمت میں پیش کرسکتا ہے شاید ہی ایک بہت بڑے دانشور میں بھی اتنی مہارت پائی جاتی ہو۔ محسن نقوی جیسے شاعر صدیوں بعد خال خال ہی پیدا ہوتے ہیں۔عذاب دید، طلوع اشک، خیمہ جاں، رخت شب، فرات فکر، ریزہ حرف، موج ادراک، برگ صحرا اور بند قبا آپ کی مشہور کتابیں ہیں۔ آپ کے شعری دنیا میں کمال کااعتراف کرتے ہوئے1994میں حکومت پاکستان نے "صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی" سے بھی نوازا۔ محسن نقوی کی ایک ہم خصوصیت لوگوں کو قنوطیت سے بچانااور ان کے دلوں میں امید کی شمع جلائے رکھنا اور ظالم و جابر حکمرانوں کے سامنے ڈٹنے کا درس دینا بھی ہے:
جس کو طوفاں سے الجھنے کی ہو عادت محسنؔ
ایسی کشتی کو سمندر بھی دعا دیتاہے
جس معاشرے میں اچھے علما، بہترین دانشوروں اور معاشرے کے نبض شناس شاعروں کا کوئی احترام نہیں ہوتا،اور ان کی قدردانی نہیں کی جاتی، وہ معاشرہ کبھی بھی ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ یہی وہ افراد ہوتے ہیں جو معاشرے کے جسم میں روح کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی وہ افراد ہوتے ہیں جو تعداد میں کم ہونے کے باوجود اکثریت پر حاوی اور معاشرے کی شناخت ہوتے ہیں۔
جہاں تنگ نظر طالبانی اور داعشی فکر رکھنے والے تکفیریوں نے ہمارے عالموں، ڈاکٹروں، دانشوروں، مفکروں ... کو ہم سے چھین لیا ہے وہیں دنیائے شعر و ادب سے فکری بلندیوں کو چھونے والی، الفاظ کےانتخاب میں یکتائے روزگار، تنوع موضوعات میں ممتاز حیثیت کے حامل، ظالم و جابر حکمرانوں کے سامنے سینہ سپر ہوکر شجاعت حیدری کا مظاہرہ کرنے والی، معاشرتی ناانصافیوں کا سراغ لگا کر شعری روپ میں اسے ڈال کر ظلم استحصال کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے والی عظیم شخصیت محسن نقوی کو ہم سے چھین کر دنیائے شعروسخن میں خزاں کا سماں طاری کیا ہے۔ ان کو ہمارے درمیان سے گئے دو عشرے سے زیادہ وقت گزرجانے کے باوجود آج بھی ان کی یادیں ہمارے دلوں میں ترو تازہ ہیں اور ان کے درد بھرے اشعار آج بھی ہمارے دلوں کو ٹھنڈک پہنچا رہے ہیں۔ یوں ہم آج بھی محسن نقوی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتے دیکھ رہے ہیں:
عمر اتنی تو عطا کر میرے فن کو خالق
میرا دشمن میرے مرنے کی خبر کو ترسے
وہ مرنے کے بعد بھی اسم با مسمی محسن انسانیت ثابت ہو رہے ہیں۔ جبکہ ان کے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگنے والے والے اس وقت بھی بدنام زمانہ تھے اور آج بھی عام و خاص کے نزدیک منفور ہیں۔
جب تک ہمارے معاشرے سے تکفیری سوچ کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہوتا تب تک محسن نقوی جیسی برجستہ شخصیات سے ہم محروم ہوتے رہیں گے۔ لہذا ہم سب کو مل کر معاشرے میں محبت و بھائی چارے کے فروغ اور نفرت و دوری کے خاتمے کے لیے اور بالخصوص تکفیریت کے ناسور کی بیخ کنی کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارا دشمن باطل پر ہونے کے باوجود آپس میں متحد ہیں جبکہ ہم حق پر ہونے کے باوجود آپس میں دست بہ گریباں ہیں۔ یہی اس وقت مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ جب تک اس کمزوری کا علاج نہیں کیا جاتا تب تک مسلمانان عالم دن بہ دن زیر عتاب رہے گا۔ دشمن ہم سے ہماری اہم شخصیات اٹھاتے رہیں گے اور ہم کف افسوس ملتے رہ جائیں گے۔ لہذا وقت کا اہم تقاضا یہی ہے کہ تمام مسلمان اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں‛ جزوی اختلافات کو درخور اعتنا میں لائے بغیر مشترکات پر متحد ہو جائیں۔ تبھی ہم اپنی عظمت رفتہ کو دوبارہ بازیاب کراسکتے ہیں اور پوری دنیا میں سرخرو ہوسکتے ہیں۔ محسن نقوی نے تو شہادت کے ذریعے موت کا استقبال کرکے موت کو مات لگا دیے لیکن ہم ایک عہد ساز شاعر سے محروم ہوگئے۔ جس کا واضح ثبوت ان کے یہ اشعار ہیں:
لے زندگی کا خمس علیؑ کے غلام سے
اے موت! آضرور مگر احترام سے
عاشق ہوں گر ذرا بھی اذیت ہوئی مجھے
شکوہ کروں گا تیرا، میں اپنے امامؑ سے