سید شاہ زمان شمسی
محفلین
تحریر سید شاہ زمان شمسی
محسوسات وکیفیت کیا ہے؟ اور عشق رسول میں فارسی شعرا کی عقیدت
یہ محسوسات آخر ہیں کیا ان کی شدت و ماہیت ہر انسان کے اندر یکساں ہوتی ہے، کیا اس سانچے سے کسی شاعر یا ادیب کو ہی گزرنا ہوتا ہے اس راہ کا مسافر کیا ولی اللہ ہی ہوتا ہے یا وہ جو نالہ نیم شبی میں دل گداختہ ہو آنکھوں سے برستی آنسووں کی جھڑی یا کسی کے فراق میں خاک بسر مٹی میں غلطاں ہو جانا ۔ شعراء حضرات میں شاید یہ قوت بنسبت عام شخص کے زیادہ ہو کیونکہ عام شخص احتیاج و انفاس کی بھٹی کو جلانے کی کوششوں میں اپنی توجہ مرتکز رکھتا ہے اس کے سوچ بچار کا معیار شعراء ادیب دیوانہ و مجذوب شخص سے علیحدہ ہوتا ہے اس کے بر عکس اول الذکر شخصیات کی بات کی جائے تو ان کی سوچ کی گہرائی یا رسائی عام لوگوں سے بالا ہوا کرتی ہے درد کی تلچھٹ کشمکش پریشانی و بے چینی میں مبتلا کیے رکھتی ہے جب ایسی کیفیت سے گزر اوقات ہو جائے تو اپنی بساط کے تحت تخیل اور شعوری وجدان کا سہارا لے کر ادیب قلم اٹھاتا ہے لکھتا ہے درد کا سارا کتھارسس قلم سے رخصت ہو کے صفحہء قرطاس پہ امڈ آتا ہے۔ نشہ ہو خمار ہو یا جمال سوگوار سب کی کیفیت الگ تھلگ جو قلمدان کی خوں ریزی سے واقف نہ ہو تو اس کے پیروں کو گھنگھرو کی چھن چھن کرتی آواز اپنی طرف راغب کر لیتی ہے وہ اسی چھن چھن کی جذب و مستی سے پوری طرح سرشار ہو کے رقص و سرود میں مبتلا رہتا ہے۔
غم حسین علیہ السلام ذکر کربلا ،شہادت طفلان کربلا مصائب و آلام سننے والوں کی الگ کیفیت مقتل کی روایات ہوں یا عمومی طور پہ ہر سال سنی جانے والی روداد جب واقعات کا تصور باندھا جائے سن کر غش کھا کے گرنا سینہ کوبی کرنا ہاتھوں سے منہ کو پیٹنا دھاڑیں مار کے رونا سب کی الگ کیفیت الگ مقام معرفت۔ یہ کیفیات و محسوسات ہر شخص میں موجود ہیں خواہ وہ اس کا ادراک شعوری و غیر شعوری طور پہ نہ کرے جب پیمانہ ٹوٹتا ہے دل پہ ضرب لگتی ہے جام و سبو گرتے ہیں تو اس کا ظہور جنوں خیزی سے ہوتا ہے۔
فارسی شاعری میں جو سوز و گداز کی کیفیت ہے درد و غم کی لہر محبت کی شدت کو سپرد قلم کرنے کے لیے جو جذبوں کی آنچ، لفظوں کی مٹھاس، ایک دکھی دل کی پکار اور ایک پر درد دل کی صدا ہوتی ہے جو ان تمام بزرگان شعراء کے کلام میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ جو اہل دل اسے پڑھتا ہے وہ یوں محسوس کرتا ہے کہ وہ خود اس کے دل کی آواز ہے اس کا مقابلہ آج کل کے مادہ پرستی کے دور میں ہونے والی شاعری سے نہیں کیا جا سکتا۔روحانیت کے جزیرے میں قلبی واردات کو بیان کرنے کے لیے جس طرح فارسی کے شعراء نے اپنے جذبات کی صداقت، احساسات کی نزاکت، مشاہدے کی وسعت، فنکارانہ صلاحیت، لفظوں کی لطافت، تراکیب کی خوبصورتی کو بیان کیا اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ فارسی شعراء کی توضیح العقائد پڑھنے کے لیے بھی قاری کو محسوسات کے سمندر میں غوطہ زن ہو کے اپنے اندر وہ کیفیت جاگزیں کرنا ہوتی ہے جو حدود عقل سے ماوراء ہو قاری ایسی دنیا میں جا داخل ہوتا ہے جسے عام آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ اس کا اظہار محمد فضولی بغدادی بارگاہ رسول میں یوں پیش کرتے ہیں۔
سیاح درک باصرہ عقل کی رسد
جایی کہ جلوہ گاہ محمد جمال است
عقل کی بینائی کے ادراک کا سیاح اس مقام پر کب پہنچ سکتا ہے جو جمال محمد(صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی جلوہ گاہ ہے
یعنی کہ عقل کی حدود و قیود سے نکل کر شدت محبت کی وہ کیفیت جو انسان کے اندر ایسی تڑپ پیدا کرے کہ جو اسے محبوب سے قریب تر کر دے بعض اوقات یہ سفر چشم تر سے بھی طے کیا جا سکتا ہے منزل عرفان کی الگ الگ کیفیات ہیں۔ پھر اگے جا کے وہ یوں فرماتے ہیں کہ
اخبار انبیاء کہ سراسر شنیدہ ای
یک یک بیان حسن خصال محمد است
چوں سوئے من گزر آی من مسکین زنا داری
فدائے نقش نعلینت کنم جاں، یا رسول اللہ
گذشتہ انبیاء کی جو تمام باتیں اور قصے تم نے سنے ہیں وہ سب کے سب خصال محمدیہ کے حسن کا بیان ہیں۔ اگر آپ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کبھی میری طرف تشریف لائیں تو میں مسکین آپ کے نعلین مبارک کے نقش پر اپنی جان قربان کر دوں۔
حمد و نعت کہنا کوئی آسان بات نہیں ہے بقول کسی شاعر کہ ہزار بار بھی اگر میں اپنے منہ کو مشک اور خوشبو سے دھووں تو پھر بھی تیرا نام لینا میرے لیے ہزار بے ادبی کے برابر ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ خدا کے ساتھ تو دیوانے بن جاو لیکن محمد کے ساتھ ہوشیار رہو۔ بلگرامی کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے
ہزار بار توان کرد با خدا شوخی
و لیک دم نتوان زد بہ مصطفی گستاخ
بلگرامی کا یہ شعر اسی مفہوم کو یوں ادا کرتا ہے کہ خدا کے ساتھ تو ہزار بار شوخی کی جا سکتی ہے لیکن حضور پاک کے حضور میں بڑے محتاط انداز میں بات کرنی چاہیے۔
محسوسات وکیفیت کیا ہے؟ اور عشق رسول میں فارسی شعرا کی عقیدت
یہ محسوسات آخر ہیں کیا ان کی شدت و ماہیت ہر انسان کے اندر یکساں ہوتی ہے، کیا اس سانچے سے کسی شاعر یا ادیب کو ہی گزرنا ہوتا ہے اس راہ کا مسافر کیا ولی اللہ ہی ہوتا ہے یا وہ جو نالہ نیم شبی میں دل گداختہ ہو آنکھوں سے برستی آنسووں کی جھڑی یا کسی کے فراق میں خاک بسر مٹی میں غلطاں ہو جانا ۔ شعراء حضرات میں شاید یہ قوت بنسبت عام شخص کے زیادہ ہو کیونکہ عام شخص احتیاج و انفاس کی بھٹی کو جلانے کی کوششوں میں اپنی توجہ مرتکز رکھتا ہے اس کے سوچ بچار کا معیار شعراء ادیب دیوانہ و مجذوب شخص سے علیحدہ ہوتا ہے اس کے بر عکس اول الذکر شخصیات کی بات کی جائے تو ان کی سوچ کی گہرائی یا رسائی عام لوگوں سے بالا ہوا کرتی ہے درد کی تلچھٹ کشمکش پریشانی و بے چینی میں مبتلا کیے رکھتی ہے جب ایسی کیفیت سے گزر اوقات ہو جائے تو اپنی بساط کے تحت تخیل اور شعوری وجدان کا سہارا لے کر ادیب قلم اٹھاتا ہے لکھتا ہے درد کا سارا کتھارسس قلم سے رخصت ہو کے صفحہء قرطاس پہ امڈ آتا ہے۔ نشہ ہو خمار ہو یا جمال سوگوار سب کی کیفیت الگ تھلگ جو قلمدان کی خوں ریزی سے واقف نہ ہو تو اس کے پیروں کو گھنگھرو کی چھن چھن کرتی آواز اپنی طرف راغب کر لیتی ہے وہ اسی چھن چھن کی جذب و مستی سے پوری طرح سرشار ہو کے رقص و سرود میں مبتلا رہتا ہے۔
غم حسین علیہ السلام ذکر کربلا ،شہادت طفلان کربلا مصائب و آلام سننے والوں کی الگ کیفیت مقتل کی روایات ہوں یا عمومی طور پہ ہر سال سنی جانے والی روداد جب واقعات کا تصور باندھا جائے سن کر غش کھا کے گرنا سینہ کوبی کرنا ہاتھوں سے منہ کو پیٹنا دھاڑیں مار کے رونا سب کی الگ کیفیت الگ مقام معرفت۔ یہ کیفیات و محسوسات ہر شخص میں موجود ہیں خواہ وہ اس کا ادراک شعوری و غیر شعوری طور پہ نہ کرے جب پیمانہ ٹوٹتا ہے دل پہ ضرب لگتی ہے جام و سبو گرتے ہیں تو اس کا ظہور جنوں خیزی سے ہوتا ہے۔
فارسی شاعری میں جو سوز و گداز کی کیفیت ہے درد و غم کی لہر محبت کی شدت کو سپرد قلم کرنے کے لیے جو جذبوں کی آنچ، لفظوں کی مٹھاس، ایک دکھی دل کی پکار اور ایک پر درد دل کی صدا ہوتی ہے جو ان تمام بزرگان شعراء کے کلام میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ جو اہل دل اسے پڑھتا ہے وہ یوں محسوس کرتا ہے کہ وہ خود اس کے دل کی آواز ہے اس کا مقابلہ آج کل کے مادہ پرستی کے دور میں ہونے والی شاعری سے نہیں کیا جا سکتا۔روحانیت کے جزیرے میں قلبی واردات کو بیان کرنے کے لیے جس طرح فارسی کے شعراء نے اپنے جذبات کی صداقت، احساسات کی نزاکت، مشاہدے کی وسعت، فنکارانہ صلاحیت، لفظوں کی لطافت، تراکیب کی خوبصورتی کو بیان کیا اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ فارسی شعراء کی توضیح العقائد پڑھنے کے لیے بھی قاری کو محسوسات کے سمندر میں غوطہ زن ہو کے اپنے اندر وہ کیفیت جاگزیں کرنا ہوتی ہے جو حدود عقل سے ماوراء ہو قاری ایسی دنیا میں جا داخل ہوتا ہے جسے عام آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ اس کا اظہار محمد فضولی بغدادی بارگاہ رسول میں یوں پیش کرتے ہیں۔
سیاح درک باصرہ عقل کی رسد
جایی کہ جلوہ گاہ محمد جمال است
عقل کی بینائی کے ادراک کا سیاح اس مقام پر کب پہنچ سکتا ہے جو جمال محمد(صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی جلوہ گاہ ہے
یعنی کہ عقل کی حدود و قیود سے نکل کر شدت محبت کی وہ کیفیت جو انسان کے اندر ایسی تڑپ پیدا کرے کہ جو اسے محبوب سے قریب تر کر دے بعض اوقات یہ سفر چشم تر سے بھی طے کیا جا سکتا ہے منزل عرفان کی الگ الگ کیفیات ہیں۔ پھر اگے جا کے وہ یوں فرماتے ہیں کہ
اخبار انبیاء کہ سراسر شنیدہ ای
یک یک بیان حسن خصال محمد است
چوں سوئے من گزر آی من مسکین زنا داری
فدائے نقش نعلینت کنم جاں، یا رسول اللہ
گذشتہ انبیاء کی جو تمام باتیں اور قصے تم نے سنے ہیں وہ سب کے سب خصال محمدیہ کے حسن کا بیان ہیں۔ اگر آپ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کبھی میری طرف تشریف لائیں تو میں مسکین آپ کے نعلین مبارک کے نقش پر اپنی جان قربان کر دوں۔
حمد و نعت کہنا کوئی آسان بات نہیں ہے بقول کسی شاعر کہ ہزار بار بھی اگر میں اپنے منہ کو مشک اور خوشبو سے دھووں تو پھر بھی تیرا نام لینا میرے لیے ہزار بے ادبی کے برابر ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ خدا کے ساتھ تو دیوانے بن جاو لیکن محمد کے ساتھ ہوشیار رہو۔ بلگرامی کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے
ہزار بار توان کرد با خدا شوخی
و لیک دم نتوان زد بہ مصطفی گستاخ
بلگرامی کا یہ شعر اسی مفہوم کو یوں ادا کرتا ہے کہ خدا کے ساتھ تو ہزار بار شوخی کی جا سکتی ہے لیکن حضور پاک کے حضور میں بڑے محتاط انداز میں بات کرنی چاہیے۔