طارق شاہ
محفلین
غزل
تابِ لب حوصلہ وَروں سے گئی
خُوئے پُرسِش بھی، خود سروں سے گئی
کب سے لو تھی شُعاع ِ مہر اُترے
آخر اِک جُوئے خُوں سروں سے گئی
بنی ایذا ہی چارۂ ایذا
زخم کی آگ نشتروں سے گئی
شرمِ مِنقار، تشنگی کیا تھی
تشنگی وہ تھی جو پروں سے گئی
چھاؤں کیا دی نئی فصیلوں نے!
آشنا دُھوپ بھی گھروں سے گئی
کھیل غرقابیوں کا یُوں بِگڑا
بات آگے سمندروں سے گئی
کوہساروں سے کیا ہَوا کو مِلا
سر ہی ٹکرا کے پتّھروں سے گئی
صبر جب سے غرض چشیدہ ہُوا
ہر فراغت قلندروں سے گئی
گر صداقت گئی ، تو یہ سمجھو!
غیرتِ فن سُخن وروں سے گئی
محشؔر بدایُونی