طارق شاہ
محفلین
غزلِ
محشؔر بدایونی
شاعری حسبِ حال کرتے رہے
کون سا ہم کمال کرتے رہے
کھائے اوروں نے پھل درختوں کے
ہم تو بس دیکھ بھال کرتے رہے
سارا دِن دُکھ سمیٹتے گُذرا
شب کو ، ردِّ ملال کرتے رہے
آدمی کیوں ہے بے خیال اِتنا ؟
خود سے ہم یہ سوال کرتے رہے
اور کیا پاسِ زخم کرتے لوگ
کوششِ اندمال کرتے رہے
خود بھی درپردہ جال میں تھے اسِیر !
وہ جو تیّار جال کرتے رہے
اجر شیشہ گروں نے کیا پایا
کام تو بے مثال کرتے رہے
دیکھیں کب آئے، جس بہار کا ہم !
اِنتظار اِتنے سال کرتے رہے
گئے موسم سے، تُم ہی کیا محشؔر !
یاں سبھی جی بحال کرتے رہے
محشؔر بدایونی