طارق شاہ
محفلین
غزل
نشہ ہے، جہل ہے، شر ہے، اِجارہ داری ہے
ہماری جنگ، کئی مورچوں پہ جاری ہے
سَمیٹ رکّھا ہے جس نے تعیش دُنیا کے
سُکونِ دِل کا تو ، وہ شخص بھی بِھکاری ہے
یہ پُوچھنے کا تو حق ہے سب اہلِ خِدمت کو!
ہمارے دُکھ ہیں، خوشی کیوں نہیں ہماری ہے
اُس اِنتظار کا اب موت تو نہیں ہے جواز
جس اِنتظار میں، اِک زندگی گُزاری ہے
زمِیں پہ ایسی تو آفت کبھی نہ ٹُوٹی تھی
خود آدمی کا وُجوُد آدمی پہ بھاری ہے
تو پِھر یہ خُونِ غرِیباں ہے کِس کی گردن پر
وہ خود شِکار کسی کا ہے، جو شِکاری ہے
وگرنہ آبروئے دفترِ معانی کیا
بِساطِ حرف بھی سچّائی نے سنواری ہے
محشؔر بدایونی
آخری تدوین: