طارق شاہ
محفلین
غزل
ہمارے ہاتھ تھے سُورج نئے جہانوں کے
سو اب زمِینوں کے ہم ہیں، نہ آسمانوں کے
ہزار گِرد لگا لیں قد آور آئینے
حَسب نَسب بھی تو ہوتے ہیں خاندانوں کے
حرُوف بِیں تو سبھی ہیں، مگر کِسے یہ شعوُر
کِتاب پڑھتی ہے چہرے، کِتاب خوانوں کے
یہ کیا ضرُور کہ ناموں کے ہم مِزاج ہوں لوگ
بہار اور خِزاں نام ہیں زمانوں کے
وہ چاہے آ کے نہ باہر کِسی سے بات کریں
خبر مکِینوں کی دیتے ہیں دَر مکانوں کے
ہماری قدر کو سمجھے یہ عصرِ ناقدراں
ہم اہلِ فن ہیں، کِھلونے نہیں دُکانوں کے
اب ایسی شورشِ بازار ِمدح میں محشؔر
خموش لہجے غنیمت ہیں قدر دانوں کے
محشؔر بدایونی