طارق شاہ
محفلین
غزل
محشربدایونی
کرے دریا نہ پُل مسمار میرے
ابھی کچھ لوگ ہیں اُس پار میرے
بہت دن گزرے اب دیکھ آؤں گھر کو
کہیں گے کیا در و دیوار میرے
وہیں سورج کی نظریں تھیں زیادہ
جہاں تھے پیڑ سایہ دار میرے
وہی یہ شہر ہے، تو شہر والو!
کہاں ہیں کوچہ و بازار میرے
تم اپنا حالِ مہجوری سناؤ
مجھے تو کھا گئے آزار میرے
جنہیں سمجھا تھا جاں پرور میں اب تک
وہ سب نکلے کفن بردار میرے
گزرتے جا رہے ہیں دن ہوا سے
رہیں زندہ سلامت یار میرے
دبا جس میں، اُسی پتھر میں ڈھل کر
بِکے چہرے سرِ بازار میرے
دریچہ کیا کھُلا میری غزل کا
ہوائیں لے اُڑیں اشعار میرے
محشربدایونی
محشربدایونی
کرے دریا نہ پُل مسمار میرے
ابھی کچھ لوگ ہیں اُس پار میرے
بہت دن گزرے اب دیکھ آؤں گھر کو
کہیں گے کیا در و دیوار میرے
وہیں سورج کی نظریں تھیں زیادہ
جہاں تھے پیڑ سایہ دار میرے
وہی یہ شہر ہے، تو شہر والو!
کہاں ہیں کوچہ و بازار میرے
تم اپنا حالِ مہجوری سناؤ
مجھے تو کھا گئے آزار میرے
جنہیں سمجھا تھا جاں پرور میں اب تک
وہ سب نکلے کفن بردار میرے
گزرتے جا رہے ہیں دن ہوا سے
رہیں زندہ سلامت یار میرے
دبا جس میں، اُسی پتھر میں ڈھل کر
بِکے چہرے سرِ بازار میرے
دریچہ کیا کھُلا میری غزل کا
ہوائیں لے اُڑیں اشعار میرے
محشربدایونی