محفلِ سماع میں ایک ریا کار پیر کا قصہ

ایک ریاکار پیر صاحب نے محفل سماع سجائی اور مصنوعی وجد میں اُچھلنے لگا، لوگ بھی اُچھلنے لگے۔ پیر صاحب کی پگڑی میں چار آنے بندھے ہوئے تھے کہ اچانک گِرہ کھل گئی اور چار آنے گِر گئے۔ اب اگر پیر صاحب سنجیدہ ہوکر اس کو ڈھونڈتا ہے تو لوگوں کو اعتراض ہو گا کہ وجد میں نہیں ہے جھوٹا ہے، اور اگر چار آنے زمین پر گِرے پڑے رہنے دیتا ہے تو اس کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے، چنانچہ وہ ریاکار سر دھنتا ہوا زبان سے اپنے چیلے کو کہتا ہے:
آنچہ برسرداشتم بگذاشتم بگذاشتم​
یعنی پگڑی میں جو چار آنے تھے وہ گِر گئے ہیں، گِرگئے ہیں۔
اس کے جواب میں اس کاٹھگ مُرید بھی آدھا شعر پڑھتا رہا، سردھنتا رہا اور جواب دیتا رہا:

غم مخور صوفی! کہ من برداشتم برداشتم​
یعنی غم نہ کر صوفی! میں نے اُٹھا لئے ہیں،اُٹھا لئے ہیں۔
(یوں) پورا شعر اس طرح بنا:

آنچہ برسرداشتم بگذاشتم بگذاشتم
غم مخور صوفی! کہ من برداشتم برداشتم​
اس قسم کے ٹھگ لوگوں کا سماع کیا اور اس کی محفل کیا؟ اور اس میں وجد آنا کیا؟ سب دھوکہ ہے۔
فیس بک سے اقتباس
 
Top