نیرنگ خیال
لائبریرین
اگر ایسا ہے تو نیرنگ خیال کو ٹیگ کر ہی دینا چاہیے۔
سب سے پہلے تو شکریہ فرقان۔۔۔ مجھے دعوت کلام کے لیے۔۔۔ اب ذرا شور کم کروا دیجیے۔۔۔ یہ سامنے کی قطار میں لوگوں سے کہیے آرام سے بیٹھیں۔ یہ پنکھوں کی آواز کم کروا دیں، یا پھر اس مائیک کا والیوم بڑھا دیں۔ بہرحال کچھ کیجیے۔ ہاں شروع کر تے ہیں۔۔۔ دھیرج دھیرج۔۔۔
السلام علیکم محفلین!
مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ میں اس موقع پر تاخیر سے آیا ہوں۔ یہ بات میں جانتا ہوں۔ ظاہر ہے جو آدمی تاخیر سے آیا ہے کیا اس کو نہیں معلوم کہ وہ تاخیر سے آیا ہے۔ تو آپ یہ بات بتا کر کون سا تیر مار رہے ہیں۔ اور نہ ہی اس سے میری معلومات میں کوئی اضافہ ہو رہا ہے۔ بہرحال اب چونکہ میں آگیا ہوں۔ اور آیا بھی سیدھا ڈائس پر ہوں۔ تو ظاہر ہے رسم رہ و دنیا نباہنے کو مجھے کچھ باتیں کرنی پڑیں گی۔ اور عین اسی رسم دنیا نباہنے کو آپ کو وہ باتیں سننی پڑیں گی۔ اب آپ یقینی طور پر سمجھ گئے ہوں گے کہ میں جو چند باتیں کرنے جا رہا ہوں،وہ صرف باتیں نہیں، "تاخیری خطبات" کی نئی قسط ہیں۔ خیر یہ کدھر نکل گیا میں۔ ہاں تو میں بات کر رہا تھا کہ گزشتہ برس میں کافی غیر فعال رہا۔ عمومی زندگی کی بات نہیں کر رہا بئی۔ اور نہ ہی گھر کی بات کر رہا ہوں۔ بلکہ محفل کی بات کر رہا ہوں۔ ہاں تو اس غیر فعالیت کے دور میں میرا قیاس یہ ہے کہ صرف میں ہی نہیں، باقی سب بھی اسی بھنگ کے پیالے سے بچا کھچا پی کر سو رہے۔ مجال ہے جو کوئی قابل ذکر لڑائی نظر آئی ہو۔ جن لوگوں نے اپنی زباندانی سے کئی میراتھن ریسیں جیتی ہیں، وہ بھی سو سو میٹر والی ریس میں ہانپتے نظر آئے۔ خیر میرا مقصد آپ سب کی سستی اور کاہلی پر انگلیاں اٹھانا نہیں ہے بلکہ یہ بتانا ہے کہ یہ غیر فعال رہنے کا میرا ارادہ بہت پرانا تھا۔ اور میں مدت العمر سے اس بادشاہ کی طرح گوشہ نشیں ہونا چاہتا تھا، جو تخت و تاج کسی اچھے وارث کے حوالے کر کے جنگل کا رخ کر سکے۔
کھنکار کر گلا صاف کرتے ہوئے۔۔۔ ذرا پانی پلانا۔۔۔ محفل سے دور کیا ہوا، بولنا ہی بھول گیا ہوں۔ یوں بھی آپ احباب جانتے ہیں کہ ایک شادی شدہ بندہ گھر میں کتنا بول سکتا ہے۔
ہاں تو دوستو! میں بات کر رہا تھا کہ اردو محفل کو دنیائے فورمز (وہی اردو والے) میں ایک امتیازی حثیت حاصل رہی ہے۔ لیکن چونکہ میں کچھ عرصہ ویلا رہا ہوں۔ اور ویلے رہنے سے انسان کی سوچ کے در کھلتے ہیں۔ سکون و آرام انسان کی سوچ میں وسعت لاتا ہے۔ سو اسی وسعت کے وسیلے میرے ذہن میں بھی کچھ کام گردش کر رہے ہیں۔ آپ کو پتا ہے کہ وہ زمانے گئے جب لوگ کلر سکرین والا موبائل لیکر شوخیاں مارا کرتے تھے اور کال آنے پر رنگ برنگی ایریل لائٹ دکھا کر غرور سے سر اونچا کرتے تھے۔ جن چیزوں کو لوگ حیرت سے تکتے تھے ، آجکل بچے وہ چیزیں تکیوں نیچے رکھ کر سوتے ہیں۔ میں خلیل خان اور فاختاؤں کی مثال نہیں دینا چاہتا، کیوں کہ خلیل خان تو آج بھی اتنا ہی ویلا ہے، لیکن فاختائیں درختوں کی کمیابی کے سبب کوچ کر گئی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ مثال میں کچھ گڑ بڑ کر دی ہے میں نے۔ تمام محفلین اس بات کو نظر انداز کر دیں۔ منتظم یہ سطریں لائیو ٹیلی کاسٹ سے کاٹ دو۔
اصل میں، میرا مطلب یہ ہے کہ دنیا بہت آگے نکل گئی ہے۔ اتنی آگے نکل گئی ہے کہ دنیا سے ہی آگے نکل گئی ہے۔ اب جو لوگ دنیا میں ہیں، وہ اصل میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ وہ زمانے گئے ، جب چوپالیں سجتی تھیں، اور سب بڑے بوڑھے، بچے جوان ایک جگہ مذہب و سیاست اور کبڈی پر سیر حاصل گفتگو کیا کرتے تھے۔ وہیں کسی کونے میں کوئی شام کو اکتارہ لیکر بیٹھ جاتا تھا اور منچلوں کی ٹولی تاش کھیل لیتی تھی۔ اب ہر کسی کو اپنا کمرہ چاہیے۔ پرائیویسی بڑی ضروری ہے۔ چیزیں گھل مل نہیں سکتیں۔ آپ سب سمجھ رہے ہیں نا۔۔۔ میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں۔ اوہ سر تو ہلاؤ۔۔۔ پتا چلے۔۔۔ اچھا چلو چھوڑو ان باتوں کو۔۔۔ کمروں کو، عمارتوں کو۔۔۔۔ پھر کریں گے بات۔۔۔ ابھی کیک شیک کھاؤ۔ خوشیاں مناؤ۔۔۔ بھنگڑے پاؤ۔۔۔
روٹی کھول دیو۔۔۔