محمدارتضیٰ آسی
محفلین
غزل پیش خدمت ہے:
مثلِ زلفِ شبِ امید بکھر کر دیکھوں
عشق کی آخری سر حد سے گزر کر دیکھوں
تیرے ہونٹوں پہ کئی بار عبادت کی ہے
اب کہ محرابِ دل و جاں میں اتر کر دیکھوں
کب تلک رسمِ تکلف کو رکھے گا جاری
اذنِ مژگاں دے، تجھے بانہوں میں بھر کر دیکھوں
تیرے سینے کی برافروختہ گہرائی میں
تیری سانسوں کے سہارے سے اتر کر دیکھوں
لوگ کہتے ہیں وہاں خامشی طاری ہے بہت
شہرِ آسیؔ میں ذرا شور و شرر کر دیکھوں
ارتضیٰ الآسیؔ
مثلِ زلفِ شبِ امید بکھر کر دیکھوں
عشق کی آخری سر حد سے گزر کر دیکھوں
تیرے ہونٹوں پہ کئی بار عبادت کی ہے
اب کہ محرابِ دل و جاں میں اتر کر دیکھوں
کب تلک رسمِ تکلف کو رکھے گا جاری
اذنِ مژگاں دے، تجھے بانہوں میں بھر کر دیکھوں
تیرے سینے کی برافروختہ گہرائی میں
تیری سانسوں کے سہارے سے اتر کر دیکھوں
لوگ کہتے ہیں وہاں خامشی طاری ہے بہت
شہرِ آسیؔ میں ذرا شور و شرر کر دیکھوں
ارتضیٰ الآسیؔ