نور وجدان
لائبریرین
اک نیا سلسلہ شروع کرنے جارہی ہوں جس میں غزل کی تشریح کرنی ہے تشریح میں مزاح کا پہلو ہونا چاہیے. محفلین کی ریٹنگ سب سے اچھی تشریح کی محتسب ہوگی .. آجائیے بسم اللہ کیجیے ... آغاز میری جانب سے غزل محفلین اپنی مرضی کی غزل چن سکتے ہیں یا اسی پر طبع آزمائی بھی کرسکتے ہیں .. اور یہ تشریح کسی بھی دوست کو dedicate کرسکتے ہیں ...میں نے یہ انہی شعراء کرام کو dedicate کردی ہے
چین کس کو ہے, یہاں پر شاد کون !!
فکرِ ہستی سے ہُوا آزاد کون !!
اس شعر میں شاعرہ بہت دکھی ہے ..یہ دکھ ایسا ہے کہ شریک محفل نہیں کیا جاسکتا ہے ... ان کا کہنا ہے زندگی میں دو پل سکون کے ہونے چاہیے، یہ کیا ہر وقت کام .کام ... آرام کا تو وقت ہی نہیں ہے.کیونکہ کام کرنے سے بے چینی بڑھ جاتی ہے ... شاعرہ ہر انسان کو مشینوں کی طرح کام کرتے دیکھ کے کڑھتی رہتی ہے اور سوچتی ہے کہ دنیا میں ہر انسان دکھی ہے .. کسی کے پاس سکون کی دولت ہی نہیں ہے .. شاعرہ تاہم بہت حساس واقع ہوئی ہیں کیونکہ وہ دوسروں کی بے سکونی کو بھی محسوس کرتی ہیں
کیجئے کیا شکوہ ِ جورو جفا
اُس ستمگر کو کرے اب یاد کون
شاعرہ اس شعر میں بے نیازی دکھاریی ہیں. ان کا ماننا ہے کہ انہیں اگر محبت راس نہیں آئی ہے اس لیے انہوں نے بھی ایسی محبت کو بھلا دیا ہے ... اچھا ہی ہے وہ چلا گیا ... ہر وقت مجھ سے ایزی لوڈ کا کہتا رہتا تھا اور جو میں نے اک دن انکار کردیا تو کہنے لگا کہ اب کسی اور سے کہوں گا .. شاعرہ کہتی ہیں یہ کیسی محبت ہے جس میں لینے کے بجائے دینا پڑے. اس سے پتا چلتا ہے کہ شاعرہ کا حساب بھی کافی اچھا ہے
دشمنوں کا ذکر جانے دیجئے
عشق سےبہترکرے بربادکون
اس شعر کا تعلق دراصل پچھلے شعر سے ہے. چونکہ پچھلے شعر میں بات مکمل نہیں ہوئی تھی اس لیے شاعرہ کو مجبوراً دوسرا شعر بھی کہنا پڑا .. انہوں اپنے محبوب کو جب کسی اور کو تحائف دیتے پایا تو غصے سے ان کا خون کھول اٹھا اور اس کیفیتِ غیبی میں ان کو یہ شعر الہام ہوگیا ... اتنا تلخ تجربہ ان کو اس سے قبل نہیں ہوا تھا اس لیے ان کو ماننا پڑا عشق نری بربادی ہے ..
میں سمندر, اور وہ صحرا نورد!
کون ہوں میں! اور مری ہمزاد کون!
یہ شعر بالکل نیا انوکھا ہے. اس کا پچھلے شعر سے کوئی تعلق نہیں ہے .. اس شعر میں شاعرہ کی اک دوست ہے وہ صحرا کی سیاحت کو چلی گئی ہے. اس دوست کا نام ہمزاد ہے. شاعرہ کے آنسو گرتے رہے مگر چونکہ صحرا خشک ہوتا ہے اس لیے ٹپ ٹپ کرتے ریت میں گم ہوگئے ...مزید براں شاعرہ نے سمندر ہونے کا دعوی کیا ہے. گمان غالب ہے ان کے آنسو سمندر بنتے گئے ہوں گے مگر خشک،کٹھور دوست پر اثر نہیں ہوا .. یوں لگتا ہے کہ وہ بھی محبوب جیسی سنگدل ہے... اس لیے شاعرہ ہمزاد کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے خود کو بھول گئی بقول شاعر
نہ جنون رہا نہ پری رہی ...
مے کشوں کا کام ہے تعمیرِ دل
ہوش میں رکھے نئی بنیاد کون!
یہ شعر تھوڑا مشکل ہے. یہاں پر تعمیرات سے متعلق اپنا تجربہ شریک کیا ہے... جتنے بھی دنیا کے مست نشے باز انسان ہیں وہ بہت کام کرتے ہیں مگر سارے کام نشے میں دھت رہتے کرتے ہیں ..اس شعر میں ایسے نشے بازوں کو مخاطب کیا گیا ہے کہ اب تم ہوش میں رہتے کام نہیں کرسکتے بلکہ سارے تعمیری کام شراب سے دل بہلاتے ہوں گے ... شاہ جہاں نے تاج محل ایسے ہی تو تعمیر نہیں کرادیا تھا وہ بھی نشے میں دھت رہتا تھا اس لیے دل میں ممتاز بیگم کا محل تعمیر ہوگیا .. محبت کی یہ نشانی پوری دنیا میں سراہی جاتی ہے .. سو ہوش سے کام نہیں لینا چاہیے سارے کام مستی میں کرنے چاہیے
ڈھونڈھ لے گا عیب ہر تخلیق میں
آدمی سے ہے بڑا نقّاد کون!
شاعرہ نے یہ شعر تب بنایا جب ان کی سابقہ شاعری پر کسی نے بھی واہ واہ نہیں کی بلکہ تنقید کی ... وہ دل ہی دل میں پریشان ہوگئیں کہ داد تو داد یہاں تو تنقید شروع ہوگئی ہے ...اب انہوں نے اپنی بات پہنچانے کے لیے اس شعر کا تراشا ہے تاکہ آپ سب سمجھ جائیں. آپ سب سمجھ تو گئے ہوں گے نا
چھوڑ المٰی اب خوئے شوق ِ بیاں
روز سنتا ہے تری روداد کون!
یہ شعر بہت مشکل ہے ...شاعرہ کا دکھ بہت بڑا ہے جسے وہ پل پل محسوس کرتی ہیں ...چونکہ ہر وقت اک سی داستان سنتے سنتے سب تنگ آجاتے ہیں اس لیے حساس دل نے اسکو محسوس کرتے خود کو مخاطب کیا ہے ..اچھا چلو، ہماری نہیں سنتا تو ہم بھی نہیں سناتے کسی کو
چین کس کو ہے, یہاں پر شاد کون !!
فکرِ ہستی سے ہُوا آزاد کون !!
اس شعر میں شاعرہ بہت دکھی ہے ..یہ دکھ ایسا ہے کہ شریک محفل نہیں کیا جاسکتا ہے ... ان کا کہنا ہے زندگی میں دو پل سکون کے ہونے چاہیے، یہ کیا ہر وقت کام .کام ... آرام کا تو وقت ہی نہیں ہے.کیونکہ کام کرنے سے بے چینی بڑھ جاتی ہے ... شاعرہ ہر انسان کو مشینوں کی طرح کام کرتے دیکھ کے کڑھتی رہتی ہے اور سوچتی ہے کہ دنیا میں ہر انسان دکھی ہے .. کسی کے پاس سکون کی دولت ہی نہیں ہے .. شاعرہ تاہم بہت حساس واقع ہوئی ہیں کیونکہ وہ دوسروں کی بے سکونی کو بھی محسوس کرتی ہیں
کیجئے کیا شکوہ ِ جورو جفا
اُس ستمگر کو کرے اب یاد کون
شاعرہ اس شعر میں بے نیازی دکھاریی ہیں. ان کا ماننا ہے کہ انہیں اگر محبت راس نہیں آئی ہے اس لیے انہوں نے بھی ایسی محبت کو بھلا دیا ہے ... اچھا ہی ہے وہ چلا گیا ... ہر وقت مجھ سے ایزی لوڈ کا کہتا رہتا تھا اور جو میں نے اک دن انکار کردیا تو کہنے لگا کہ اب کسی اور سے کہوں گا .. شاعرہ کہتی ہیں یہ کیسی محبت ہے جس میں لینے کے بجائے دینا پڑے. اس سے پتا چلتا ہے کہ شاعرہ کا حساب بھی کافی اچھا ہے
دشمنوں کا ذکر جانے دیجئے
عشق سےبہترکرے بربادکون
اس شعر کا تعلق دراصل پچھلے شعر سے ہے. چونکہ پچھلے شعر میں بات مکمل نہیں ہوئی تھی اس لیے شاعرہ کو مجبوراً دوسرا شعر بھی کہنا پڑا .. انہوں اپنے محبوب کو جب کسی اور کو تحائف دیتے پایا تو غصے سے ان کا خون کھول اٹھا اور اس کیفیتِ غیبی میں ان کو یہ شعر الہام ہوگیا ... اتنا تلخ تجربہ ان کو اس سے قبل نہیں ہوا تھا اس لیے ان کو ماننا پڑا عشق نری بربادی ہے ..
میں سمندر, اور وہ صحرا نورد!
کون ہوں میں! اور مری ہمزاد کون!
یہ شعر بالکل نیا انوکھا ہے. اس کا پچھلے شعر سے کوئی تعلق نہیں ہے .. اس شعر میں شاعرہ کی اک دوست ہے وہ صحرا کی سیاحت کو چلی گئی ہے. اس دوست کا نام ہمزاد ہے. شاعرہ کے آنسو گرتے رہے مگر چونکہ صحرا خشک ہوتا ہے اس لیے ٹپ ٹپ کرتے ریت میں گم ہوگئے ...مزید براں شاعرہ نے سمندر ہونے کا دعوی کیا ہے. گمان غالب ہے ان کے آنسو سمندر بنتے گئے ہوں گے مگر خشک،کٹھور دوست پر اثر نہیں ہوا .. یوں لگتا ہے کہ وہ بھی محبوب جیسی سنگدل ہے... اس لیے شاعرہ ہمزاد کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے خود کو بھول گئی بقول شاعر
نہ جنون رہا نہ پری رہی ...
مے کشوں کا کام ہے تعمیرِ دل
ہوش میں رکھے نئی بنیاد کون!
یہ شعر تھوڑا مشکل ہے. یہاں پر تعمیرات سے متعلق اپنا تجربہ شریک کیا ہے... جتنے بھی دنیا کے مست نشے باز انسان ہیں وہ بہت کام کرتے ہیں مگر سارے کام نشے میں دھت رہتے کرتے ہیں ..اس شعر میں ایسے نشے بازوں کو مخاطب کیا گیا ہے کہ اب تم ہوش میں رہتے کام نہیں کرسکتے بلکہ سارے تعمیری کام شراب سے دل بہلاتے ہوں گے ... شاہ جہاں نے تاج محل ایسے ہی تو تعمیر نہیں کرادیا تھا وہ بھی نشے میں دھت رہتا تھا اس لیے دل میں ممتاز بیگم کا محل تعمیر ہوگیا .. محبت کی یہ نشانی پوری دنیا میں سراہی جاتی ہے .. سو ہوش سے کام نہیں لینا چاہیے سارے کام مستی میں کرنے چاہیے
ڈھونڈھ لے گا عیب ہر تخلیق میں
آدمی سے ہے بڑا نقّاد کون!
شاعرہ نے یہ شعر تب بنایا جب ان کی سابقہ شاعری پر کسی نے بھی واہ واہ نہیں کی بلکہ تنقید کی ... وہ دل ہی دل میں پریشان ہوگئیں کہ داد تو داد یہاں تو تنقید شروع ہوگئی ہے ...اب انہوں نے اپنی بات پہنچانے کے لیے اس شعر کا تراشا ہے تاکہ آپ سب سمجھ جائیں. آپ سب سمجھ تو گئے ہوں گے نا
چھوڑ المٰی اب خوئے شوق ِ بیاں
روز سنتا ہے تری روداد کون!
یہ شعر بہت مشکل ہے ...شاعرہ کا دکھ بہت بڑا ہے جسے وہ پل پل محسوس کرتی ہیں ...چونکہ ہر وقت اک سی داستان سنتے سنتے سب تنگ آجاتے ہیں اس لیے حساس دل نے اسکو محسوس کرتے خود کو مخاطب کیا ہے ..اچھا چلو، ہماری نہیں سنتا تو ہم بھی نہیں سناتے کسی کو
آخری تدوین: