رضوان
محفلین
محمد ابراہیم ذوق (1789ء۔۔۔۔۔1854ء)
ذوق کا اصل نام محمد ابراہیم تھا اور ذوق تخلص کرتے تھے۔ غریب سپاہی محمد رمضان کے لڑکے تھے۔ دلی میں پیدا ہوئے۔اس زمانے میں شاہ نصیر دہلوی کا طوطی بول رہا تھا۔ ذوق بھی ان کے شاگرد ہو گئے۔ دل لگا کر محنت کی اور ان کی شاعرانہ مقبولیت بڑھنے لگی۔ بہت جلد علمی ادبی حلقوں میں ان کا وقار اتنا بلند ہو گیا کہ کہ قلعہ معلیٰ تک رسائی ہو گئی۔ اور خود ولی عہد بہادر شاہ ظفر ان کو اپنا کلام دکھانے لگے۔ شاہ اکبر ثانی نے ایک قصیدہ کے صلے میں ملک الشعراء خاقانی ہند کا خطاب مرحمت فرمایا۔ ذوق کو عربی فارسی کے علاوہ متعدد علوم موسیقی، نجوم، طب تعبیر خواب وغیرہ پر کافی دسترس حاصل تھی۔
احساسات کے تنوع اور جذبہ کا فقدان کو ان کی غزل کی اساسی صفت قرار دیا جاسکتا ہے۔ اسی لیے انہوں نے محض الفاظ کے سہارے شاعری کی۔ (اور جہاں تک ایسی شاعری کا تعلق ہے) خوب کی۔ اس آخری ہچکی تمدن کے افراد میں ذوق کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ ہی اشعار کا فکر سے پاک ہونا ہے۔ بس چلتی باتیں ہیں جنہیں محاورات کی چاشنی اور زور بیان سے ذود ہضم بنانے کی سعی ملتی ہے۔ ذوق پر گو تھے اور اردو زبان میں محاورات کی کمی نہیں۔ چنانچہ یہ احساس ہوتا ہے کہ ذوق نے تمام محاورات منظوم کرنے کی شرط باندھ رکھی ہے۔ فکر اورجذبہ کی کمی محاورات سے پوری کرنے کی کوشش ہی نہ کی بلکہ بعض اشعار دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے گویا یہ صرف محاورہ بندی ہی کے لیے لکھے گئے۔ ویسے حسن و عشق کی واردات بھی ہیں اور تصوف اور اخلاقی پند بھی لیکن سب روایتی معلوم ہوتے ہیں۔ الغرض ان کے یہاں تاثیر کے علاوہ باقی سب کچھ مل سکتا ہے۔ حالانکہ غزلیں کافی سے زیادہ طویل ہیں۔
ان کی چند نمائندہ غزلیں درج ذیل ہیں۔
ذوق کا اصل نام محمد ابراہیم تھا اور ذوق تخلص کرتے تھے۔ غریب سپاہی محمد رمضان کے لڑکے تھے۔ دلی میں پیدا ہوئے۔اس زمانے میں شاہ نصیر دہلوی کا طوطی بول رہا تھا۔ ذوق بھی ان کے شاگرد ہو گئے۔ دل لگا کر محنت کی اور ان کی شاعرانہ مقبولیت بڑھنے لگی۔ بہت جلد علمی ادبی حلقوں میں ان کا وقار اتنا بلند ہو گیا کہ کہ قلعہ معلیٰ تک رسائی ہو گئی۔ اور خود ولی عہد بہادر شاہ ظفر ان کو اپنا کلام دکھانے لگے۔ شاہ اکبر ثانی نے ایک قصیدہ کے صلے میں ملک الشعراء خاقانی ہند کا خطاب مرحمت فرمایا۔ ذوق کو عربی فارسی کے علاوہ متعدد علوم موسیقی، نجوم، طب تعبیر خواب وغیرہ پر کافی دسترس حاصل تھی۔
احساسات کے تنوع اور جذبہ کا فقدان کو ان کی غزل کی اساسی صفت قرار دیا جاسکتا ہے۔ اسی لیے انہوں نے محض الفاظ کے سہارے شاعری کی۔ (اور جہاں تک ایسی شاعری کا تعلق ہے) خوب کی۔ اس آخری ہچکی تمدن کے افراد میں ذوق کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ ہی اشعار کا فکر سے پاک ہونا ہے۔ بس چلتی باتیں ہیں جنہیں محاورات کی چاشنی اور زور بیان سے ذود ہضم بنانے کی سعی ملتی ہے۔ ذوق پر گو تھے اور اردو زبان میں محاورات کی کمی نہیں۔ چنانچہ یہ احساس ہوتا ہے کہ ذوق نے تمام محاورات منظوم کرنے کی شرط باندھ رکھی ہے۔ فکر اورجذبہ کی کمی محاورات سے پوری کرنے کی کوشش ہی نہ کی بلکہ بعض اشعار دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے گویا یہ صرف محاورہ بندی ہی کے لیے لکھے گئے۔ ویسے حسن و عشق کی واردات بھی ہیں اور تصوف اور اخلاقی پند بھی لیکن سب روایتی معلوم ہوتے ہیں۔ الغرض ان کے یہاں تاثیر کے علاوہ باقی سب کچھ مل سکتا ہے۔ حالانکہ غزلیں کافی سے زیادہ طویل ہیں۔
ان کی چند نمائندہ غزلیں درج ذیل ہیں۔
لائي حيات آئے ، قضا لے چلي چلے
اپني خوشي نہ آئے نہ اپني خوشي چلے
ھم عمر خضر بھي تو ھو معلوم وقت مرگ
ھم کيا رھے يہاں ابھي آئے ابھي چلے
ھم سے بھي اس بساط پہ کم ھوں گے بد وقمار
جو چال ھم چلے سو نہايت بري چلے
بہتر تو ھے يہي کہ نہ دنيا سے دل لگے
پر کي کريں جو کام نہ بے دل لگي چلے
ليلي کا ناقہ دشت ميں تاثير عشق سے
سن کر فغاں قيس بجائے حدي چلے
نازاں نہ ھو خرد پہ جوھونا ھے ھو وھي
دانش تيري نہ کچھ مري دانش وري چلے
دنيا نے کس کا راھ ميں ديا ھے ساتھ
تم بھي چلے چلو يونہي جب تک چلي چلے
جاتے ھوئے شوقميں ھے اس چمن سے ذوق
اپني بلا سے باد صبا اب کبھي چلے
اپني خوشي نہ آئے نہ اپني خوشي چلے
ھم عمر خضر بھي تو ھو معلوم وقت مرگ
ھم کيا رھے يہاں ابھي آئے ابھي چلے
ھم سے بھي اس بساط پہ کم ھوں گے بد وقمار
جو چال ھم چلے سو نہايت بري چلے
بہتر تو ھے يہي کہ نہ دنيا سے دل لگے
پر کي کريں جو کام نہ بے دل لگي چلے
ليلي کا ناقہ دشت ميں تاثير عشق سے
سن کر فغاں قيس بجائے حدي چلے
نازاں نہ ھو خرد پہ جوھونا ھے ھو وھي
دانش تيري نہ کچھ مري دانش وري چلے
دنيا نے کس کا راھ ميں ديا ھے ساتھ
تم بھي چلے چلو يونہي جب تک چلي چلے
جاتے ھوئے شوقميں ھے اس چمن سے ذوق
اپني بلا سے باد صبا اب کبھي چلے