محمداحمد
لائبریرین
محمد احمد کٹہرے میں
تحریر: محمد احمدؔ
کمرہء عدالت میں روشنی کافی کم تھی، اس ملگجی روشنی میں سب چہرے دھندلے دھندلے نظر آ رہے تھے۔ تاہم اس کے باوجود، میں تمام حاضرین کے تاثرات بخوبی دیکھ سکتا تھا۔ سب لوگ اپنی اپنی نشستوں پر براجمان میری ہی طرف دیکھ رہے تھے۔ میں کٹہرے میں شرمندہ شرمندہ کھڑا تھا۔ منصف کی کرسی پر کوئی ایک صاحب نہیں تھے بلکہ مقدمہ سننے کے لئے ایک بہت بڑا فل کورٹ بینچ مقرر کیا گیا تھا۔ منصفین کی کرسیوں پر اردو شاعری کی دنیا کے صفِ اول کے اساتذہ موجود تھے ۔ یہ سب اپنے اپنے زمانوں کے قادر الکلام شعرا تھے اُور ان سب کے سینکڑوں تلامذہ بھی شاعری کی دنیا میں نام بنا چکے تھے۔ تمام منصفین کافی اضطراب و اشتعال کا شکار نظر آ رہے تھے اور اُن میں سے بیشتر میری طرف قہر آلود نظروں سے دیکھ رہے تھے۔حاضرین میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد شامل تھی اوریہ سب کے سب اس مقدمے میں گہری دلچسپی رکھتے تھے ۔ گو حاضرین میں سے کسی کو نہیں معلوم تھا کہ کیا فیصلہ ہونا چاہیے لیکن اکثر نوجوانوں کی دلی تمنا تھی کہ مجھے سزا کے بغیر نہ چھوڑا جائے۔ بات تھی بھی کچھ ایسی ہی ۔ میں نے گزشتہ دنوں ایک لمبے چوڑے مضمون میں نوجوانوں کو عشقیہ شاعری سے باز رہنے کی نصیحت کی تھی۔ گو کہ اس مضمون میں اور بھی کئی باتیں تھیں۔ لیکن شاعروں نے شاعری کی سرزنش کو اور نوجوانوں نے عشق پر تنبیہہ کا بہت بُرا مانا۔ اور اب نتیجتاًمیں یہاں کٹہرے میں کھڑا اُس گھڑی کو کوس رہا تھا جب مجھے یہ ہرزہ سرائی کرنے کا خیال آیا تھا۔
اس وقت مقدمے کی کاروائی اپنے عروج پر تھی۔ مجھے اپنے دفاع میں کافی دِقّت کا سامنا تھا۔ حضرتِ فراق گورکھپوری بے حد اشتعال میں نظر آتے تھے۔ میری طرف ایک غضبناک نظر ڈال کر فرمانے لگے۔
کوئی سمجھے تو ایک بات کہوں
عشق توفیق ہے، گناہ نہیں
اُن کی تائید میں سب کے سب منصفین سر ہلاتے نظر آ رہے تھے۔ مومن خان مومن نے میرے مذکورہ مضمون پر مجھے سخت سست کہا اور اپنا ایک شعر کچھ ترمیم کے ساتھ یوں پڑھا:
عمر تو ساری کٹی عشقِ بتاں میں احمد
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہو گے؟
مجھے بغلیں جھانکنے کے سوا کچھ نہیں سوجھ رہا تھا۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اپنا دفاع کیسے کروں۔ خواہش یہ تھی کہ میرے موقف کے حق میں کچھ اشعار یاد آ جائیں تاکہ وہ اشعار سنا کر اِن عاشق میرا مطلب ہے کہ قابل اساتذہ اور شعرا کو قائل کر سکوں۔ میری نثر سے تو یہ لوگ پہلے ہی عاجز تھے۔ لیکن وائے قسمت! حافظے میں موجود شاعری کے طومار سے میرے مؤقف کی حمایت نہ برامد ہونی تھی ،نہ ہوئی کیونکہ شعرا تو سب کے سب سر سے پاؤں تک عشق میں لتھڑے ہوئے تھے۔
مرزا غالب بھی منصفین کی صف میں نیم موجود تھے ۔ موصو ف اپنی موجودگی ثابت کرنے کے لیے مجھ سےمخاطب ہوئے ۔ آج اُنہوں نے اس گناہگار کو بھتیجا کہنے کی زحمت بھی نہیں کی، کہنے لگے۔
عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش احمد
کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے
جس سے مجھے لگ لگ نہ لگے بن کہے لگ جائے والی پہیلی یاد آئی ۔ تاہم اُس کا بالکل بھی محل نہیں تھا۔ سو خاموشی میں ہی عافیت جانی۔
حضرتِ داغ بھی موجود تھے اور جیسا کہ ان کے بار ے میں سنتے آئے ہیں ، وہ جہاں بیٹھ جاتے تھے، بیٹھ ہی جاتے تھے، یہاں بھی بڑے ٹھسّے سے ٹھنسے ہوئے بیٹھے تھے۔ جب داغ دہلوی نے ر وئے سُخن میری طرف کیا تو میرا دل بیٹھنے لگا۔ میں نے با مشکل سر اُٹھا کر اُن کی طرف دیکھا۔اوروں کی طرح وہ بھی کافی شاکی نظر آئے۔ کہنے لگے:
بات میری کبھی سنی ہی نہیں
ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں
اپنی کم بختی کا تو خیر مجھے یقین ہونے لگا تھا کہ اگر خوش بخت ہوتا تو دنیا کے بجائے محض اپنے آپ کو ہی نصیحت کرنے میں عافیت جانی ہوتی اور آج یہاں پھنسا ہوا نہ ہوتا۔ البتہ اس بات کا شکر میں نے ضرور کیا کہ حضرتِ داغ نے مجھے زاہد ہونے کا طعنہ نہیں دیا۔ نہ ہی مجھے چائے کافی اور دیگر مشروبات آفر کیں۔
جب جب منصفین میرے خلاف کوئی بات کہتے یا کوئی شعر سُنا کر چوٹ کرتے تو سامنے بیٹھے نوجوان زبردست تالیاں پیٹتے۔ حالانکہ مجھے پورا بھروسہ تھا کہ مقدمے کی تمام تر کاروائی بشمول اشعار اُن کے سر پر سے گزر رہی ہوگی۔ لیکن شاید یہ میری لمحہ بہ لمحہ بڑھتی رو سیاہی تھی کہ جس سے یہ عزازیلی لشکر خوب لطف اندوز ہورہا تھا۔ عجیب بات تھی کہ ان کی یہ شرارت بھری تالیاں اور بلا کے شور و غوغا سن کر بھی ان سخت گیر منصفین کو نظم و ضبط کا خیال نہیں آ رہا تھا۔ کسی کو توفیق نہ ہوتی تھی کہ چوبی ہتھوڑا اُٹھا کر میز پر پٹختے ہوئے آرڈر آرڈر کی صدا لگائے۔
اکبر الہ آبادی بھی موجود تھے ۔ آپ نے پہلے تو میرے مغربی طرز کے لباس پر کافی کڑی تنقید کی۔ پھر مجھے سمجھاتے ہوئے کہنے لگے کہ ارے میاں ہوش کے ناخن مت لو۔ اور یہ شعر پڑھا:
عشق نازک مزاج ہے بے حد
عقل کا بوجھ اٹھا نہیں سکتا
حضرتِ میر تقی میر نے میرے نازک تن و توش کو نشانہ بناتے ہوئے چوٹ کی:
عشق احمد یہ بھاری پتھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے
میں چپ کرکے یہ طنز و طعنے سن رہا تھا اور دل ہی دل میں اپنے آپ کو کوس رہا تھا کہ میں نے اس قدر منہ پھٹ ہونے کا ثبوت کیو ں دیا؟ کیا لگی لپٹی نہیں رکھی جا سکتی تھی۔ یا کم از کم عنوان ہی " آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے" قسم کا لکھ دیا ہوتا ۔دیکھا گیا ہے کہ جب اُدبا اور شعرا زیادہ غصے میں ہوتے ہیں تو اس قسم کا عنوان ڈال کر تحریر میں ساری بھڑاس نکال لیتے ہیں۔ جذبات کی نکاسی بھی ہو جاتی ہے اور اشتعال آمیز پندو نصائح کا ابلاغ بھی ہو جاتا ہے۔ اور پڑھنے والا تب بھی کچھ کہنے سے گریز کرتا ہے کہ پہلے ہی آج دل میں درد زیادہ ہے کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔
میں انہی گہری سوچوں میں ڈوبا ہوا تھا کہ کسی نے مجھے ٹہوکا دے کر ہلایا ۔ ہوش میں آیا تو پتہ چلا کہ حضرتِ جگر مراد آبادی مجھ سے مخاطب تھے۔ کان لگا کر سنا تو فرماتے ہوئے پائے گئے۔
عشق جب تک نہ کر چکے رسوا
آدمی کام کا نہیں ہوتا
یہی وہ موقع تھا ، جب میں نے سوچا کہ آج سب ہی کچھ نہ کچھ ٹھان کر آئے ہوئے ہیں۔ اب بھی اگر میں نے اپنی صفائی میں کچھ نہیں کہا تو اس حجّتی لشکر کی طرف سے فردِ جرم عائد ہونے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ ہوگا ۔
ڈرتے ڈرتے منہ کھولا ۔ عرض کیا۔ قبلہ جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں ۔ اذنِ گفتگو ملا تو عرض کیا کہ ضروری نہیں ہے کہ انسان رسوا ہونے کے لئے عشق جیسا کٹھن اور بے سرو پا کام انجام دے۔ ہونے کو تو انسان میری طرح عشق کی مخالفت کرکے بھی رُسوا ہو سکتا ہے۔ آپ سب احباب لائق فائق عاشق بالغ سمجھدار ہیں مجھے دیکھ کر عبرت حاصل کرنا آپ کے لیے دشوار نہ ہوگا۔
حضرتِ اقبال جو ابھی تک اپنا رُخسار اپنی انگلیوں کی پشت پر ٹکائے کسی سوچ میں محو تھے ، میری اس دریدہ دہنی پر چونک گئے اور مملکتِ خداداد کی ادھوری تشکیل پر سیخ پا ہوتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوئے۔ فرمایا:
لطف کلام کیا جو نہ ہو دل میں درد عشق
بسمل نہیں ہے تو تو تڑپنا بھی چھوڑ دے
میں نے عرض کیا کہ یہ خاکسار بھی کوئی بالکل گیا گزرا نہیں ہے بلکہ ہوش میں آنے سے ذرا ہی قبل یعنی دورِ نادانی میں انگلی کا ناخن کٹوا کر اُس سے سنگلاخ چٹانوں کو چیر کر جوئے شیر کی برامدگی کی سعی کر چکا ہے۔ بسمل نہ سہی، لیکن بسمہ اللہ تو ہو ہی چکی ہے۔ پھر میں نے علامہ کے ساتھ ساتھ میر صاحب کی بھی توجہ چاہی اور میر صاحب کا شعر پڑھا۔
کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق
جان کا روگ ہے بلا ہے عشق
میر صاحب اس اچانک آ نے والی اُفتاد سے چونک گئے ، اس سے پیشتر کہ وہ کچھ کہتے، میں نے سانس لیے بغیر ایک اور شعر پڑھا۔
آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم
اب جو ہیں خاک انتہا ہے یہ
اب جو منصفین نے دیکھا کہ ملزم اقرارِ جرم کے بجائے دو بدو تکرار پر آمادہ نظر آتا ہے تو وہ بھی چوکنا ہو گئے۔
داغ صاحب کہ جن کے عقب میں موجود دیوار پر سرف ایکسل کا اشتہار آویزاں تھا، ہمیں پھر سے مخاطب کرتے ہوئے فرمانے لگے:
غم عشق میں مزا تھا جو اسے سمجھ کے کھاتے
یہ وہ زہر ہے کہ آخر مے خوش گوار ہوتا
ہم نے کہا کہ یہ سب پرانے زمانے کی راگنیاں ہیں متقدمین اور متاخرین سب نے اس راہ میں ٹھوکریں ہی کھائی ہیں۔ نوح ناروی صاحب جو آپ کی برادری سے ہیں، فرماتے ہیں :
عشق میں اور کچھ نہیں ملتا
سیکڑوں غم نصیب ہوتے ہیں
جو یہ سبق یاد کرلے اُس کی چھٹی بند ہو جاتی ہے۔ اور یہ نوجوان جو آج یہاں عدالت میں بیٹھے ہیں یہ اُس والے عشق کو جانتے ہی نہیں جو کسی زمانے میں ہوا کرتا تھا۔ اب تو حال یہ ہے کہ بقول سراج اورنگ آبادی:
خبر تحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی
میری خوش قسمتی یہ تھی کہ حضرتِ جون ایلیا وہاں موجود نہیں تھے میں نے اُن کے دو غیر متعلقہ شعر بھی اپنے دفاع میں داغ دیے۔
روح نے عشق کا فریب دیا
جسم کو جسم کی عداوت میں
تعجب ہے کہ عشق و عاشقی سے
ابھی کچھ لوگ دھوکا کھا رہے ہیں
اساتذہ میں سے کسی نے جزبز ہوکر کہا۔ بھئی یہ جون ایلیا کس چڑیا کا نام ہے؟ سب ایک دوسری کی شکل دیکھنے لگے۔ اس اثنا میں ہمیں احساس ہوا کہ ہم اپنے دفاع میں کافی جارحانہ ہو گئے ہیں سو فوراً ریورس گیئر لگایا اور حسرت موہانی کی زبانی غیر مشروط معافی طلب کی۔
شکوۂ غم ترے حضور کیا
ہم نے بے شک بڑا قصور کیا
کہ اب تو غلطی ہو گئی ہے آئندہ احتیاط کریںگے۔
اساتذہ کا غصہ تو کسی حد تک ٹھنڈا ہو چکا تھا لیکن ہال میں موجود نوجوان نہیں چاہتے تھے کہ ہماری جان بخشی ہو۔ اچانک کہیں سے احمد فراز فرشتہ بن کر نمودار ہوئے اور اُنہوں نے نوجوانوں کو جزوی ریلیکسیشن دینے کا عندیہ دیا اور فرمایا :
جستہ جستہ پڑھ لیا کرنا مضامین وفا
پر کتاب عشق کا ہر باب مت دیکھا کرو
اور ہماری طرف دیکھ کر حکیم ناصر صاحب کی زبانی فرمایا :
اِس کے دل پر بھی کڑی عشق میں گزری ہوگی
نام جس نے بھی محبت کا سزا رکھا ہے
ہم نے بھی جان چُھڑانے کے لئے نوجوانوں سے ایک فی البدیہہ خطاب کیا اور کہا کہ آپ لوگ ہم سے زیاد ہ سمجھدار ہیں ۔ وغیرہ وغیرہ۔ اصل لبِ لباب اس تقریر کا یہ تھا کہ میری بلا سے آپ جو چاہیں کریں ، بس میری جان بخش دیں۔ ہماری تقریر ابھی ختم ہوئی ہی تھی کہ اچانک نوجوانوں میں سے جون ایلیا برامد ہوئے اور مجھے دیکھ کر کہنے لگے۔
کر لیا تھا میں نے عہد ترک عشق
تم نے پھر بانہیں گلے میں ڈال دیں
میں نے بامشکل خود کو پیچھے کھینچا اور جون صاحب سے بغل گیر ہونے سے بچا۔ میں نے دیکھا کہ سب نوجوان اپنی اپنی نشستوں سے کھڑے ہو گئے تھے اور کسی جانی پہچانی دھن پر رقص کر رہے تھے۔ موسیقی کی یہ آواز لحظہ بہ لحظہ فزوں تر ہوتی جا رہی تھی۔ اچانک میرا ہاتھ اریب قریب ٹٹول ٹٹول کر کچھ تلاش کرنے لگا۔ قریب سے ہی سے ایک کرخت آواز سنائی دی ۔ اتنی دیر سے الارم بج رہا ہے لیکن بند کرنے کی توفیق نہیں ہے۔
آخری تدوین: