حمیرا حیدر
محفلین
چند سطور تعارف کے !
یادگار زمانہ ہیں ہم لوگ
یاد رکھنا فسانہ ہیں ہم لوگ
١٩۴٧ کی تقسیم ہند اور سابقہ مشرقی پاکستان کی تاریخ ساز دور کے حوالے سے ایک غیر معروف ادبی شخصئیت
سید محمد تقی حسین جنہیں اس شعر کی معنوی تصویر کہا جائے تو بے جا نا ہوگا! دل میں سو کہانیاں چھپائے خاموش طبع،حساس، سادگی وظرافت کا عنوان، تجربات زندگی کا پیکر ، دھنک کے رنگوں کا ایک ستارہ ہے- ایک شام کی ترتیب کا آغاز ان کے ساتھ حمیرا حیدر کی گفتگو سے مرصع ہے!
سوال : آپ کی جنم بھومی ؟
1946 میں پٹنہ(بہار) میں پیدا ہوا۔ 1947 کی پاک و ہند کی تقسیم کے بعد میرا خاندان ہجرت کرکے مشرقی پاکستان آ گیا
سوال: بچپن کیسا گزرا؟
بچپن سیدپور(مشرقی پاکستان ) میں گزرا ۔ میرے والد ریلوے میں تھے۔
سوال: تعلیم کے بارے میں بتائیں کہاں سے حاصل کی؟
ابتدائی تعلیم سیدپور ہی کے سکول سے حاصل کی۔وہاں کا معیار تعلیم بہت زبردست تھا۔ میں نے گریجویشن قائداعظم کالج مشرقی پاکستان سے کیا۔
سوال: آپ کا تعلق مشرقی پاکستان سے ہمیں کچھ بتائیں کہ مشرقی پاکستان کیسا تھا؟
مشرقی پاکستان اور وہاں کے باسی سب بہت اچھے تھے۔ وہ پاکستان سے ویسی ہی محبت کرتے تھے جیسی مغربی پاکستان والے کرتے تھے۔ وہ آزادی نہیں چاہتے تھے۔
سوال: مشرقی پاکستان کا زخم جو مغربی پاکستان کو لگا کیا حالات و واقعات تھے کہ ہم جدا ہوئے؟
ان میں کچھ اپنوں کے نام آتے ہیں جن کی وجہ سے یہ گھاو لگا۔ حالات اس وقت بہت کشیدہ تھے اس قدر خون بہا کہ ہوا سے خون کی بو آتی تھی۔ آج بھی بہت سے لوگ پاکستان آنے کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ ان کا معیار زندگی یوں ہے کہ اپنے گھر بار رکھنے والے اب دس دس روپے کے عوض مصالحہ پیستے ہیں۔
سوال: آپ سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان کب اور کیسے ائے؟
1971میں سقوط ڈھاکہ کے بعد فسادات پھوٹ پڑے۔ ہم نے وہاں سے دوبارہ ہجرت کی۔ پہلے انڈیا پھر نیپال پھر وہاں سے بنکاک اور بالآخر 12 اکتوبر 1972 کو پاکستان پہنچے۔ ہم نے دوسری بار اپنا سب کچھ چھوڑ کر ہجرت کی۔
سوال: مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش ۔۔۔ دل کیا کہتا ہے؟
دل بہت دکھتا ہے جیسا کہ میں نے بتایا وہ بنگلہ دیش نہیں بننا چاہیتے تھے بلکہ پاکستان ہی رہنا چاہیتے تھے۔
سوال: ملازمت کہاں کہاں کی؟
پہلی ملازمت میں نے اسلامیہ سکول سید پور ( مشرقی پاکستان ) میں کی۔ پھر ڈائریکٹوریٹ آف لیبر ڈھاکہ میں 1971 تک ملازمت کی۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان آئے تو نیشنل مین پاوور کونسل کے ریسرچ ونگ اور پھر اسی کے ساتھ منسلک کئی دوسرے اداروں میں خدمات انجام دیں۔ اوور سیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن میں کئی غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ کام کیا۔ عراق میں پرسنل انچارج آف ایکسپٹریٹ افیئرز کے طور پر کام کیا۔ اسی دوران ایک فنش کمپنی نے اس کا انتظام سنبھالا تو ان کے ساتھ میں نے کام کیا۔ پھر انسٹیٹوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ آف پاکستان سے منسلک ہو گیا سینئر مینیجر ،ممبر اینڈ کارپوریٹ افیئرز کام کیا اور 2009 میں ریٹائر ہوا۔
(اب ہم نے ان کی شخصیت کے ادبی پہلو کا احاطہ کرنے کی کوشش کی)
سوال: آپ نے لکھنے کا آغاز کب اور کہاں سے کیا؟
لکھنے کا آغاز آٹھویں جماعت سے کیا۔ شروع میں اردو اچھی نہیں تھی اس لئے میں نے انگریزی میں لکھا۔ مارننگ نیوز اخبار ہمارے گھر آتا تھا۔ اس میں جونیئرز کا صفحہ تھا بچوں کے لئے۔ میں نے ایک نظم "The citizen" لکھی اور بھیج دی۔ اتفاق سے وہ چھپ گئی جس سے مجھے حوصلہ ملا اور میں نے بچوں کے صفحے کے کئی نظمیں اور آرٹیکل لکھے۔
سوال: کیا لکھنے کی صلاحیت خداداد ہوتی ہے؟ یا اسے سیکھنا پڑتا ہے؟
لکھنا ایک خداداد صلاحیت ہے۔ تربیت حاصل کرکے آپ لکھ سکتے ہیں مگر اس میں گہرائی اور جذبات کا آنا خداداد ہوتا ہے۔ یہ صلاحیت خدا کا تحفہ ہے اپنے بندے کے لئے۔
سوال: آپ کو کئی زبانوں پر عبور حاصل ہے۔ اس بارے میں ہمیں بتائیں۔
میرا گھرانے میں اردو بولی جاتی تھی، مگر میری اردو کمزور تھی ابتداء میں تو میرے والد صاحب نے ہمارے محلے میں ایک شاعر تھے ماہر فریدی اب کے پاس بھیجا اور یوں اردو کی طرف میلان بڑھا۔ مجھے اردو، انگریزی کے علاوہ ہندی، بنگلہ اور فنش زبان سے واقفیت ہے۔
سوال: آپ نے انگریزی نظمیں بھی لکھیں۔ اردو کے علاوہ کسی دوسری زبان میں لکھنے کا تجربہ کیسا ہے؟
اردو میں بہت بعد میں لکھا ہے میں شروع میں انگریزی ہی میں شاعری کی اور آرٹیکل بھی لکھے۔ ہر زبان کا اپنا حسن ہے۔
سوال:کیا آپ نے رپورتاژ بھی لکھے ؟
جی ہاں میں نے شمع کراچی اور شمع دہلی میں رپورتاژ لکھے۔ یہ مشرقی پاکستان ہی میں لکھے 1970 میں یہ شائع ہوئے۔
سوال: زندگی کا پہلا مشاعرہ یاد ہے؟
جی بالکل یاد ہے۔ یہ مشرقی پاکستان میں ہوا تھا میں کالج کا طالب علم تھا۔ میں نے اپنی آزاد نظم پڑھ "خدا" پڑھی تھی۔ مہمان خصوصی احمد ندیم قاسمی صاحب، استاد قمر جلالوی اور دلیل شاعر تھے۔
استاد قمر جلالوی صاحب نے غزل کے میدان میں طبع آزمائی کا کرنے مشورہ دیا۔
سوال: پہلا مجموعہ کلام پہلی محبت کی طرح ہوتا ہے۔ ہمیں اس بارے میں بتائیں؟
پہلا مجموعہ کلام جس میں انگریزی اور اردو سب کلام شامل تھا اسے ترتیب دیا تھا اس کا نام "فانوس خیال" تھا اور اسے پبلش کرنے کا ارادہ تھا ۔ مگر اسی دوران سقوط ڈھاکہ ہو گیا اور ہمیں جان بچا کر وہاں سے آنا تھا۔وہ سب کچھ ان فسادات کی نظر ہو گیا۔
سوال: دوران ملازمت ڈائریکٹوریٹ آف لیبر مشرقی پاکستان میں مزدور سے متعلق مختلف ریسرچ اور معلوماتی مضامین بھی لکھے۔ مزدور کی زندگی کیا ہے؟
دوران ملازمت میں کئی ریسرچ کئیں اور وہ پبلشں ہوئیں۔ مزدوروں اور غیر ملکیوں کے درمیان میں نے مترجم کے فرائض بھی انجام دیئے۔
سوال : آپ کے ادب کے مختلف شعبوں میں کام کیا۔ آپ نے شاعری بھی کی اور نثر نگاری بھی۔ کیا پسند ہے شاعری یا نثر؟
دوران مالزمت میں نے کئی اداروں کے لئے نیوز لیٹر لکھے آرٹیکل اور ریسرچ بھی کیں اور رسائل میں بھی کام کیا۔ان میں بہبود رسالے کی کی تدوین ، پاکستان اکاؤنٹینٹ رسالہ شامل ہیں وغیرہ شامل ہیں۔ میں نے رپورتاژ بھی لکھے۔مگر مجھے شاعری زیادہ پسند ہے۔
سوال: عموما شاعری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا تعلق دل سے ہوتا ہے ۔ کیا ایسا ہے؟
دیکھیں گل و بلبل کے جذبات ہر ایک کے نہیں ہوتے ہوتے۔ ہم جیسے لوگ گراں ہیں۔ اور شاعر لوگ عموما حساس ہوتے ہیں وقت اور حالات کو شعر کا جامہ پہنا دیتے ہیں۔
سوال: شاعری کتابی صورت میں شائع کی؟
1970 سے پہلے کا تو سب ضائع ہو گیا۔ اب البتہ اپنی غزلوں اور نظموں کو مرتب کیا ہے۔ ارادہ ہے شائع کرنے کا۔
مگر ایک چیز میں کہتا ہوں کہ اگر یہ شاعری چھپ بھی گئی تو کتنے عرصے کے لئے باقی رہے گی۔ دنیا میں صرف ایک کلام ایسا ہے جو قیامت تک باقی رہنے والا ہے وہ کلام اللہ باقی سب ختم ہونے والا ہے چاہے جتنا بھی اعلی کیوں نہ ہو۔
سوال: آج کے دور کے سوشل میڈیا کے شعراء کے بارے میں کیا کہیں گے؟
جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ کچھ صلاحیتیں خداداد ہیں۔ یہ سیکھی نہیں جا سکتیں۔ ہر نوجوان انسان جذبات رکھتا ہے۔ اس کو شعر میں ڈھالنا چاہتا ہے مگر الفاظ پر گرفت نہیں کر پاتا۔
سوال: آپ نے انگریزی نظموں کا منظوم ترجمہ بھی کیا۔ ہمیں کچھ سنائیں
سرہانے قبر پہ میرے نا رونا
نہیں ہوں میں یہاں خوابیدہ جانم
ہوائے تیز وتُند و نرم جُو میں
وجود گُمشدہ میرا ہے سر گم
کہیں گالا برف کا ہوں فضا میں
کہیں بارش کا قطرہ ہوں فضا میں
کہیں بالی سُنہری ہوں فصل کا
کہیں میں صبح کی چنچل ہوا ہوں
کہیں میں مُسکراہٹ ہوں فضا کی
کہیں اُڑتے پرندوں کی صدا ہوں
میں ہوں شب کا درخشندہ ستارہ
مُجھے کھلتے ہوئے پھولوں میں ڈھونڈو
میں صدائے بازگان آسمان ہوں
ان ہی اجزا میں ہرسُو جا بجا ہوں
سرہانے قبر کے میرے نا رونا
نہ ہی ہوں میں یہاں ، نا میں مرا ہوں
سوال :آپ سے کچھ آپ کے اشعار ہم سننا چاہیئں گے۔
یہ میرے خوابوں کے ریزے ریزے چمن چمن جو بکھر گئے ہیں
شکست دل کہ ہیں آبگینے پلک پلک جو سنور گئے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گلاب راتوں کی چاندنی میں تمہاری خوشبو بسی ہوئ ہے
تمہارے عارض کی نرم کرنوں میں سو ستاروں کی روشنی ہے
پھر تیرے بعد کبھی دل کو سنبھالا نہ گیا
عشق کو بھی سر بازار اچھالا نہ گیا
مجھ سے ضد تھی انہیں اتنی کہ شب غم کی قسم
شہر سے کوئی میرے بعد نکالا نہ گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شب کے ٹوٹے ہوئے تاروں یہ بتاو مجھ کو
نیند کس راہ پہ ہے آج کی شب میرے سوا
شب کے رشتوں پہ کہاں جاوں میرا کوئی نہیں
ہر طرف گھور اندھیرا ہے یہاں میرے سوا
سوال : آپ کی مصروفیت کیا ہے آج کل؟
اپنے ایک دوست کے پاس پراپرٹی کے دفتر میں وقت گزارتا ہوں۔
اسی کے ساتھ ہم نے گفتگو کا اختتام کیا۔
یادگار زمانہ ہیں ہم لوگ
یاد رکھنا فسانہ ہیں ہم لوگ
١٩۴٧ کی تقسیم ہند اور سابقہ مشرقی پاکستان کی تاریخ ساز دور کے حوالے سے ایک غیر معروف ادبی شخصئیت
سید محمد تقی حسین جنہیں اس شعر کی معنوی تصویر کہا جائے تو بے جا نا ہوگا! دل میں سو کہانیاں چھپائے خاموش طبع،حساس، سادگی وظرافت کا عنوان، تجربات زندگی کا پیکر ، دھنک کے رنگوں کا ایک ستارہ ہے- ایک شام کی ترتیب کا آغاز ان کے ساتھ حمیرا حیدر کی گفتگو سے مرصع ہے!
سوال : آپ کی جنم بھومی ؟
1946 میں پٹنہ(بہار) میں پیدا ہوا۔ 1947 کی پاک و ہند کی تقسیم کے بعد میرا خاندان ہجرت کرکے مشرقی پاکستان آ گیا
سوال: بچپن کیسا گزرا؟
بچپن سیدپور(مشرقی پاکستان ) میں گزرا ۔ میرے والد ریلوے میں تھے۔
سوال: تعلیم کے بارے میں بتائیں کہاں سے حاصل کی؟
ابتدائی تعلیم سیدپور ہی کے سکول سے حاصل کی۔وہاں کا معیار تعلیم بہت زبردست تھا۔ میں نے گریجویشن قائداعظم کالج مشرقی پاکستان سے کیا۔
سوال: آپ کا تعلق مشرقی پاکستان سے ہمیں کچھ بتائیں کہ مشرقی پاکستان کیسا تھا؟
مشرقی پاکستان اور وہاں کے باسی سب بہت اچھے تھے۔ وہ پاکستان سے ویسی ہی محبت کرتے تھے جیسی مغربی پاکستان والے کرتے تھے۔ وہ آزادی نہیں چاہتے تھے۔
سوال: مشرقی پاکستان کا زخم جو مغربی پاکستان کو لگا کیا حالات و واقعات تھے کہ ہم جدا ہوئے؟
ان میں کچھ اپنوں کے نام آتے ہیں جن کی وجہ سے یہ گھاو لگا۔ حالات اس وقت بہت کشیدہ تھے اس قدر خون بہا کہ ہوا سے خون کی بو آتی تھی۔ آج بھی بہت سے لوگ پاکستان آنے کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ ان کا معیار زندگی یوں ہے کہ اپنے گھر بار رکھنے والے اب دس دس روپے کے عوض مصالحہ پیستے ہیں۔
سوال: آپ سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان کب اور کیسے ائے؟
1971میں سقوط ڈھاکہ کے بعد فسادات پھوٹ پڑے۔ ہم نے وہاں سے دوبارہ ہجرت کی۔ پہلے انڈیا پھر نیپال پھر وہاں سے بنکاک اور بالآخر 12 اکتوبر 1972 کو پاکستان پہنچے۔ ہم نے دوسری بار اپنا سب کچھ چھوڑ کر ہجرت کی۔
سوال: مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش ۔۔۔ دل کیا کہتا ہے؟
دل بہت دکھتا ہے جیسا کہ میں نے بتایا وہ بنگلہ دیش نہیں بننا چاہیتے تھے بلکہ پاکستان ہی رہنا چاہیتے تھے۔
سوال: ملازمت کہاں کہاں کی؟
پہلی ملازمت میں نے اسلامیہ سکول سید پور ( مشرقی پاکستان ) میں کی۔ پھر ڈائریکٹوریٹ آف لیبر ڈھاکہ میں 1971 تک ملازمت کی۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان آئے تو نیشنل مین پاوور کونسل کے ریسرچ ونگ اور پھر اسی کے ساتھ منسلک کئی دوسرے اداروں میں خدمات انجام دیں۔ اوور سیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن میں کئی غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ کام کیا۔ عراق میں پرسنل انچارج آف ایکسپٹریٹ افیئرز کے طور پر کام کیا۔ اسی دوران ایک فنش کمپنی نے اس کا انتظام سنبھالا تو ان کے ساتھ میں نے کام کیا۔ پھر انسٹیٹوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ آف پاکستان سے منسلک ہو گیا سینئر مینیجر ،ممبر اینڈ کارپوریٹ افیئرز کام کیا اور 2009 میں ریٹائر ہوا۔
(اب ہم نے ان کی شخصیت کے ادبی پہلو کا احاطہ کرنے کی کوشش کی)
سوال: آپ نے لکھنے کا آغاز کب اور کہاں سے کیا؟
لکھنے کا آغاز آٹھویں جماعت سے کیا۔ شروع میں اردو اچھی نہیں تھی اس لئے میں نے انگریزی میں لکھا۔ مارننگ نیوز اخبار ہمارے گھر آتا تھا۔ اس میں جونیئرز کا صفحہ تھا بچوں کے لئے۔ میں نے ایک نظم "The citizen" لکھی اور بھیج دی۔ اتفاق سے وہ چھپ گئی جس سے مجھے حوصلہ ملا اور میں نے بچوں کے صفحے کے کئی نظمیں اور آرٹیکل لکھے۔
سوال: کیا لکھنے کی صلاحیت خداداد ہوتی ہے؟ یا اسے سیکھنا پڑتا ہے؟
لکھنا ایک خداداد صلاحیت ہے۔ تربیت حاصل کرکے آپ لکھ سکتے ہیں مگر اس میں گہرائی اور جذبات کا آنا خداداد ہوتا ہے۔ یہ صلاحیت خدا کا تحفہ ہے اپنے بندے کے لئے۔
سوال: آپ کو کئی زبانوں پر عبور حاصل ہے۔ اس بارے میں ہمیں بتائیں۔
میرا گھرانے میں اردو بولی جاتی تھی، مگر میری اردو کمزور تھی ابتداء میں تو میرے والد صاحب نے ہمارے محلے میں ایک شاعر تھے ماہر فریدی اب کے پاس بھیجا اور یوں اردو کی طرف میلان بڑھا۔ مجھے اردو، انگریزی کے علاوہ ہندی، بنگلہ اور فنش زبان سے واقفیت ہے۔
سوال: آپ نے انگریزی نظمیں بھی لکھیں۔ اردو کے علاوہ کسی دوسری زبان میں لکھنے کا تجربہ کیسا ہے؟
اردو میں بہت بعد میں لکھا ہے میں شروع میں انگریزی ہی میں شاعری کی اور آرٹیکل بھی لکھے۔ ہر زبان کا اپنا حسن ہے۔
سوال:کیا آپ نے رپورتاژ بھی لکھے ؟
جی ہاں میں نے شمع کراچی اور شمع دہلی میں رپورتاژ لکھے۔ یہ مشرقی پاکستان ہی میں لکھے 1970 میں یہ شائع ہوئے۔
سوال: زندگی کا پہلا مشاعرہ یاد ہے؟
جی بالکل یاد ہے۔ یہ مشرقی پاکستان میں ہوا تھا میں کالج کا طالب علم تھا۔ میں نے اپنی آزاد نظم پڑھ "خدا" پڑھی تھی۔ مہمان خصوصی احمد ندیم قاسمی صاحب، استاد قمر جلالوی اور دلیل شاعر تھے۔
استاد قمر جلالوی صاحب نے غزل کے میدان میں طبع آزمائی کا کرنے مشورہ دیا۔
سوال: پہلا مجموعہ کلام پہلی محبت کی طرح ہوتا ہے۔ ہمیں اس بارے میں بتائیں؟
پہلا مجموعہ کلام جس میں انگریزی اور اردو سب کلام شامل تھا اسے ترتیب دیا تھا اس کا نام "فانوس خیال" تھا اور اسے پبلش کرنے کا ارادہ تھا ۔ مگر اسی دوران سقوط ڈھاکہ ہو گیا اور ہمیں جان بچا کر وہاں سے آنا تھا۔وہ سب کچھ ان فسادات کی نظر ہو گیا۔
سوال: دوران ملازمت ڈائریکٹوریٹ آف لیبر مشرقی پاکستان میں مزدور سے متعلق مختلف ریسرچ اور معلوماتی مضامین بھی لکھے۔ مزدور کی زندگی کیا ہے؟
دوران ملازمت میں کئی ریسرچ کئیں اور وہ پبلشں ہوئیں۔ مزدوروں اور غیر ملکیوں کے درمیان میں نے مترجم کے فرائض بھی انجام دیئے۔
سوال : آپ کے ادب کے مختلف شعبوں میں کام کیا۔ آپ نے شاعری بھی کی اور نثر نگاری بھی۔ کیا پسند ہے شاعری یا نثر؟
دوران مالزمت میں نے کئی اداروں کے لئے نیوز لیٹر لکھے آرٹیکل اور ریسرچ بھی کیں اور رسائل میں بھی کام کیا۔ان میں بہبود رسالے کی کی تدوین ، پاکستان اکاؤنٹینٹ رسالہ شامل ہیں وغیرہ شامل ہیں۔ میں نے رپورتاژ بھی لکھے۔مگر مجھے شاعری زیادہ پسند ہے۔
سوال: عموما شاعری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا تعلق دل سے ہوتا ہے ۔ کیا ایسا ہے؟
دیکھیں گل و بلبل کے جذبات ہر ایک کے نہیں ہوتے ہوتے۔ ہم جیسے لوگ گراں ہیں۔ اور شاعر لوگ عموما حساس ہوتے ہیں وقت اور حالات کو شعر کا جامہ پہنا دیتے ہیں۔
سوال: شاعری کتابی صورت میں شائع کی؟
1970 سے پہلے کا تو سب ضائع ہو گیا۔ اب البتہ اپنی غزلوں اور نظموں کو مرتب کیا ہے۔ ارادہ ہے شائع کرنے کا۔
مگر ایک چیز میں کہتا ہوں کہ اگر یہ شاعری چھپ بھی گئی تو کتنے عرصے کے لئے باقی رہے گی۔ دنیا میں صرف ایک کلام ایسا ہے جو قیامت تک باقی رہنے والا ہے وہ کلام اللہ باقی سب ختم ہونے والا ہے چاہے جتنا بھی اعلی کیوں نہ ہو۔
سوال: آج کے دور کے سوشل میڈیا کے شعراء کے بارے میں کیا کہیں گے؟
جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ کچھ صلاحیتیں خداداد ہیں۔ یہ سیکھی نہیں جا سکتیں۔ ہر نوجوان انسان جذبات رکھتا ہے۔ اس کو شعر میں ڈھالنا چاہتا ہے مگر الفاظ پر گرفت نہیں کر پاتا۔
سوال: آپ نے انگریزی نظموں کا منظوم ترجمہ بھی کیا۔ ہمیں کچھ سنائیں
سرہانے قبر پہ میرے نا رونا
نہیں ہوں میں یہاں خوابیدہ جانم
ہوائے تیز وتُند و نرم جُو میں
وجود گُمشدہ میرا ہے سر گم
کہیں گالا برف کا ہوں فضا میں
کہیں بارش کا قطرہ ہوں فضا میں
کہیں بالی سُنہری ہوں فصل کا
کہیں میں صبح کی چنچل ہوا ہوں
کہیں میں مُسکراہٹ ہوں فضا کی
کہیں اُڑتے پرندوں کی صدا ہوں
میں ہوں شب کا درخشندہ ستارہ
مُجھے کھلتے ہوئے پھولوں میں ڈھونڈو
میں صدائے بازگان آسمان ہوں
ان ہی اجزا میں ہرسُو جا بجا ہوں
سرہانے قبر کے میرے نا رونا
نہ ہی ہوں میں یہاں ، نا میں مرا ہوں
سوال :آپ سے کچھ آپ کے اشعار ہم سننا چاہیئں گے۔
یہ میرے خوابوں کے ریزے ریزے چمن چمن جو بکھر گئے ہیں
شکست دل کہ ہیں آبگینے پلک پلک جو سنور گئے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گلاب راتوں کی چاندنی میں تمہاری خوشبو بسی ہوئ ہے
تمہارے عارض کی نرم کرنوں میں سو ستاروں کی روشنی ہے
پھر تیرے بعد کبھی دل کو سنبھالا نہ گیا
عشق کو بھی سر بازار اچھالا نہ گیا
مجھ سے ضد تھی انہیں اتنی کہ شب غم کی قسم
شہر سے کوئی میرے بعد نکالا نہ گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شب کے ٹوٹے ہوئے تاروں یہ بتاو مجھ کو
نیند کس راہ پہ ہے آج کی شب میرے سوا
شب کے رشتوں پہ کہاں جاوں میرا کوئی نہیں
ہر طرف گھور اندھیرا ہے یہاں میرے سوا
سوال : آپ کی مصروفیت کیا ہے آج کل؟
اپنے ایک دوست کے پاس پراپرٹی کے دفتر میں وقت گزارتا ہوں۔
اسی کے ساتھ ہم نے گفتگو کا اختتام کیا۔