نگار ف
محفلین
انيسويں صدي ميں نپولين نے مصر پرحملہ کيا وہ مصر سے شام اور يوروشليم جانا چاھتے تھے اور وہاں سے قسطنطنيہ سے ہوتے ہوئے يورپ واپس جانے کا ارادہ رکھتے تھے -مصر پرنپولين کا يہ حملہ عالم اسلام پر يورپ کي دوسري يلغار تھي جو اب زيادہ طاقتور ہوچکا تھا ليکن نپولين اس مھم ميں کامياب نہ ہوسکا اور اسے شکست ہوئي اسي صدي ميں سلطنت عثمانيہ کا زوال شروع ہوا جو کبھي يورپ کي سب سے بڑي دشمن اور عالم اسلام ميں سب سے بڑي حکومت سمجھي جاتي تھي- اسي صدي ميں يورپ کے بعض ملکوں نے دنياکے مختلف علاقوں خاص طور سے عالم اسلام پر قبضہ کرنے کے لئے سامراجي کوششيں شروع کيں- انيسويں صدي کي يہ اہم ترين تبديلياں ہيں اس زمانے ميں يورپ کو اس بات کا انتظار تھاکہ حکومت عثماني کے ٹکڑے ہوں اور وہ فوجي طاقت سے يا اپني حمايت کے تحت اسلامي ملکوں پر قبضہ کرلے ليکن يورپ کي يہ آرزو پہلي جنگ عظيم تک پوري نہ ہوسکي -
انيسويں صدي ميں اب حالات بدل چکے تھے پہلي ہجري سے دسويں صدي ہجري تک کا عالم اسلام پوري طرح تبديل ہوچکا تھا اب يورپ نے سائنس کي روشني ميں ترقي کرلي تھي اور عالم اسلام جو کبھي علم ودانش کا گہوارہ سمجھاجاتاتھا اب پسماندہ کہلانے لگا تھا ان حالات ميں يورپ کا يہ احساس ختم ہوچکاتھا کہ اسلام ان کا سب سے بڑادشمن ہے بلکہ يورپيوں کو اسلام شناسي کا شوق ہوچکاتھا جو معاصر تاريخ ميں باب استشراق کے اضافے کا باعث بنا-انيسويں صدي ميں عالم اسلام کي سير وسياحت کرنے والے افراد کو ہم پہلے مستشرقين قرارديے سکتے ہيں جنہوں نے نزديک سے عالم اسلام کا مشاھدہ کرکے مسلمانوں کے حالات تحريرکئے ہيں ان تحريروں ميں اسلامي مظاہر کو بيان کرنے کےلئے روماني زبان استعمال کي گئي ہے اور بڑي حدتک مبالغے سےبھي کام ليا گيا ہے بہرحال ہميں يہ تصور نہيں کرنا چاہيے کہ غلط تعبيروں اور الزامات کا سلسلہ ختم ہوچکا تھا-ساوتي "وقايع نامہ سيد"نامي کتاب کےترجمے کے مقدمے ميں لکھتےہيں کہ "محمد (ص) کي ايک بڑي غلطي يہ تھي کہ انہوں نے مسلمانوں کو تعدد ازواج کا شو ق اورترغيب دلائي تھي ان کا کہنا ہےکہ يہ روش معاشرے پرتسلط جاري رکھنے اور ماضي کے آداب کو باقي رکھنے کي ايک روش ہے -
قابل ذکر ہے جنسي مسائل کے بارےميں مغرب کي ذھنيت کا ايک حصہ وہ تصورات ہيں جو مغرب نے عثماني درباروں کے حرمسراوں کےبارے ميں قائم کررکھے تھے ،عثماني حرمسراوں کےبارے ميں مغرب کا يہ تصور تھا کہ ان ميں بے شمار عورتين لڑکياں اور لڑکے رہا کرتے تھے يہان تک کے يہ تصورات بھي ملتے ہيں کہ عثمانيوں نے زمين پر جنت کي شکل ميں بڑے بڑے محل بنارکھےتھے جن ميں ہرطرح کي آسائش کا سامان تھا -اسي طرح کي تصوير منتسکيو نے ايراني خطوط ميں پيش کي ہے ليکن سياحوں نے اس تصور کو مستردکيا ہے - تئوفي گوتيہ Theophile Goutier نے اٹھارہ سو ترپن ميں لکھا تھا کہ " اگر کسي کو مسلمان مرد اور اس کي بيويوں کے درميان پائے جانے والے احترام متانت اور پاکدامني کي اطلاع ہو تو وہ ان تمام شہوت پرستي کي خيال پردازيوں اورر ان افسانوي باتوں سے دستبردار ہوجائے گا جو اٹھارويں صدي کے ہمارے مصنفين نے گڑھي ہيں -
اس کے باوجود يورپ ميں محمد (ص) اور مسلمانوں کو شہوت پرست قرارديا جاتا رہا بلکہ يہ امر محمد (ص) و مسلمين کے بارے ميں يورپي ذھنيت کا بنيادي رکن تھا اس کا ايک نمونہ برطانوي شاعر لارڈ بائرون کي نظم " بہشت محمدي "ہے ان اشعار ميں وہ کہتے ہيں کہ اس بہشت کا تعلق مردوں سے ہے اور عورتوں کے لئے اسميں کوئي جگہ نہيں ہے يہ وہي خيال ہے جو قرون وسطي ميں بھي پيش کيا گيا تھا اور ہم نے اس کي طرف اشارہ کيا ہے -اس کے علاوہ قرآن ميں پيش کي گئي جنت کي تصوير جس ميں حوروں اور شراب طہور کي بات کي گئي ہے روماني شاعروں کے لئے ايک اچھا موضوع بن گيا تھا اور معمول کے مطابق تحريف و خيال پردازي کا شکار ہوگيا تھا اور يہ خيالات مخاطبين کے ذھن ميں نقش ہوگئے تھے گوئٹيہ اسي طرح کا ايک شاعر ہے حافظ شيراز کا چاھنے والا جس نے بہشت محمدي کے بارے ميں بے شمار نظميں کہي ہيں -
بعض لوگوں کے لئے يہ خيالات خوشي کا باعث بھي تھے ھاينريش ھاينہ جو خود جنسي بے راہ روي ميں گرفتار تھا اسلامي مشرق کو بزعم خويش جنسي آزادي کي بناپر عيسائي مغرب پرترجيح ديتا تھا وہ کہتا تھا کہ مغربي دنيا تاريک اور مقدس مآب ہے بنابريں ان دونون تصورات ميں اعتدال کہيں نہيں پايا جاتا بلکہ يہ افراط کا شکار ہيں اس افراط کا سبب محمد(ص) کي حقيقي جنت سے ناواقف اور جہالت کا شکار ہوناتھا -ھاينہ نے قرآن کےجرمن ترجمے کا مطالعہ کيا ليکن اسے قرآن ميں صرف اپني پسند کي چيزوں يعني حور وقصوراور تعدد زوجات کے بارے ميں بيان کئے گئے امورکے علاوہ اور کچھ نہ مل سکا -ھاينہ نے منصور نام کے عاشق اور اس کي معشوقہ سليمہ کي داستان لکھي ہے يہ داستان اسپين ميں گذرتي ہے جو مسلمانوں اور عيسائيوں کے مابيں تنازعہ کا سبب رہتاہے داستان کے آخر ميں وہ عاشق ومعشوق کا وصال بيان کرتا ہے اورمعشوقہ اس موقع پر سوچتي ہےکہ وہ جنت ميں ہے گويا وہ يہ يقين کرليتي ہےکہ محمد (ص) نے بہشت کے بارے ميں ساري باتيں سچ سچ بيان کي تھيں -ھاينہ نے اٹھارہ سو چوبيس ميں لکھا تھا کہ "ميں يہ اعتراف کرتا ہوں کہ اے مکے کے بزرگ پيغمبر تم سب سے بڑے شاعرہو اور تمہارا قرآن جسے ميں صرف جرمن ترجمے کے ذريعے سمجھ سکتا ہوں اتني آساني سے ميرے ذھن سےمحونہيں ہوسکے گا "-
ويکٹر ہوگو نے اٹھارہ سو انتيس ميں ايک نظم لکھي جسميں انہوں نے افراط سے کام ليتے ہوئے اھل مشرق کو شہوت پرست اور وحشي بتايا ہے يہ مسلمانوں کي غير حقيقي اور بعيد ازواقعيت تصوير ہے اس نظم ميں انہوں نے حرمسراوں دوشيزاوں اورعطر و گلاب کي باتيں کي ہيں يہاں پر حرمسراوں کا تصور عثماني حرمسراوں کے بارےميں يورپ کے تصورکے عين مطابق ہے يعني ايسے حرمسرا کہ جن کي ديواريں چھے ہزار کٹے ہوے سروں سے بنائي گئي ہيں يہاں پر ايک کٹا ہواسرگفتگو کرتاہوا دکھائي ديتا ہے يہ سر ايک شاعر اوريوناني فوجي کي زبان سے جومسلمانوں کے ہاتھوں قيد ہوچکا ہے بيک وقت بات کرتا ہے -اس نظم سےظاہر ہوتا ہے کہ يورپ کے خلاف ترکوں کي جنگوں سے يورپي ذھن کس قدر متاثر تھا اس زمانے ميں يونان کي آزادي ان لوگوں کي سب سے بڑي آرزو تھي جو عثماني حکومت کي تباہي کے خواہاں تھے -
اس زمانے کا يورپ جو کليسا کي رھبانيت کے شکنجے سے خود کو آزاد کرارہاتھا اسلام کاتجزيہ کرتے ہوے سرگردان نظر آتا ہے اس سرگرداني کي وجہ يہ ہےکہ وہ سمجھ رہا ہے کہ اسلام نے انسان کے دنيوي امور کوپورا کرنے کامکمل انتظام کياہے اورا ان ہي امور کو شہوت پرستي کے الزامات کے طور پرپيش کرنا چاھتا تھا -
مثال کے طورپر گيبون نے سلطنت روم کے انحطاط اور سقوط پر اپني کتاب ميں محمد (ص) کي مختصر تاريخ بيان کي ہے وہ محمد(ص) کو دھوکہ بازاور مکار قرارديتے ہيں اور ساتھ ميں يہ بھي لکھتے ہيں کہ يہ امر حيات انساني کي بہبود اور استحکام کےلئے ضروري ہے کيونکہ عيسائيت ميں يہ امر موجود نہيں ہے -يہاں پر ہم ديکھتےہيں کہ قرون وسطي کے تصورات انيسويں صدي ميں بھي پاے جاتے ہيں -
وليم موئير محومت کي زندگي پر اپني چارجلدي کتاب ميں مکہ اورمدينہ کي زندگي کا فرق بيان کرتے ہيں وہ کہتے ہيں کہ مدينے ميں حالات بدل گئے تھے وہاں دنيوي طاقت جاہ طلبي اور خواہشات نفساني تيزي سے رسول کي زندگي کے اعلي اھداف ميں شامل ہوگئيں اور يہ ساري چيزيں دنيوي روشوں سے ہاتھ آتي ہيں اور وحي سياسي اقدامات کي توجيہ کرنے کے لئے نازل ہوتي تھي - وہ اس بات پر اعتراض کرتے ہيں کہ خدا نے محمد (ص) کو کس بنا پر بے شمار عورتوں سے شادي کرنے کي اجازت دي تھي-
اسي طرح کے مطالب خاص طور سے بہشت محمد (ص) کے بارے ميں واشنگٹن ايروينگ کي کتاب ميں ملتے ہيں -يہ کتاب "زندگاني محمد کے عنوان سے لندن ميں اٹھارہ سو اکاون ميں شايع ہوئي -
ايلويس اسپرنگر Alois Sprenger نے مذکورہ بالا افراد کے برخلاف "محمد کي زندگي اورتعليمات "نامي اپني کتاب ميں يورپ کے اس الزام کو مسترد کيا ہے کہ محمد (ص) بندہ تن تھے انہوں نے لکھا ہےکہ مجھے اپني تحقيقات سے يہ نتيجہ حاصل ہوتا ہےکہ اسلام نہ انتقام کي غرض سے نہ نفساني خواہشات کي وجہ سے نہ کسي ايک فرد کي خواہش کي بناپربلکہ وقت کي ضرورت کي بناپر وجود ميں آيا-ميں نے يہ ثابت کرنے کي کوشش کي ہےکہ محمد کوئي ہيرو نہيں جيسا کہ کارلائل سمجھتے ہيں اور نہ کسي اھريمني طاقت کے الہ کار ہيں-
تورآندرہ نے انيس سو اٹھارہ ميں شخصيت محمد (ص) نامي کتاب ميں لکھا کہ محمد (ص) ايک سچے ديني اور سماجي مصلح تھے جنہوں نے جزيرہ عرب کو جاھليت سے نجات دي اور اپني قوم کو نئي طرزپر فکر کرنے کي تعليم دي -
مارگوليوث نے بھي انيس سو پانچ ميں محمد (ص) کي زندگي پرايک کتاب لکھي ان کا مقصد محمد کي ذات کو يورپي مصنفين کے الزامات سے منزہ کرناتھا جوان مصنفين نے گذشتہ صديوں ميں ان پر لگاے تھے وہ حضرت خديجہ کے بعد آپ کي متعدد شاديوں کے بارے ميں لکھتے ہيں کہ يورپي مصنفين نے ان شاديوں کو غير معمولي شہوت کا نتيجہ قرارديا ہے جبکہ ايسا لگتا ہے کہ ان شاديوں کا سبب نيک محرکات ہيں وہ لکھتے ہيں کہ محمد کي کئي شادياں سياسي محرکات کي بناپرتھيں پيغمبر اپنے پيرووں اور مشيروں کو خود سے زيادہ سے زيادہ نزديک کرنے کا اشتياق رکھتے تھے بے شک عمر و ابوبکر کي بيٹيوں سے شادي کرنے کا ان کامقصد يہي تھا-اس قدر مثبت ذھنيت کے باوجود مارگوليوث بھي قرون وسطي کي ذھنيت سے بچ نہ سکے اور محمد پر فريبکاري سميت ديگرالزامات لگاے -اس طرح کے الزامات کم نہيں ہيں جن سے پتہ چلتا ہےکہ انيسويں صدي کا يورپ جسے عقليت پسندي کا بڑادعوي ہے ہرگزقرون وسطي کي ذھنيت سے خود کو نجات نہيں دے سکا ہے -اسي صدي ميں ہميں "کرنھيل سے قاہرہ کبير تک "نامي کتابيں بھي ديکھنے کوملتي ہيں جن ميں اسلام و محمد(ص) کي تصوير کو بري طرح مسخ کرکے پيش کيا گيا ہے اس کتاب ميں اسلام کو بے رحم اور عقل مخالف دين قرارديا گيا ہے جس کي بنياد ايک ھوس پرست نے رکھي تھي -
مصنفہ: مينوصميمي
پیشکش: خواھر سکینہ از تہران
انيسويں صدي ميں اب حالات بدل چکے تھے پہلي ہجري سے دسويں صدي ہجري تک کا عالم اسلام پوري طرح تبديل ہوچکا تھا اب يورپ نے سائنس کي روشني ميں ترقي کرلي تھي اور عالم اسلام جو کبھي علم ودانش کا گہوارہ سمجھاجاتاتھا اب پسماندہ کہلانے لگا تھا ان حالات ميں يورپ کا يہ احساس ختم ہوچکاتھا کہ اسلام ان کا سب سے بڑادشمن ہے بلکہ يورپيوں کو اسلام شناسي کا شوق ہوچکاتھا جو معاصر تاريخ ميں باب استشراق کے اضافے کا باعث بنا-انيسويں صدي ميں عالم اسلام کي سير وسياحت کرنے والے افراد کو ہم پہلے مستشرقين قرارديے سکتے ہيں جنہوں نے نزديک سے عالم اسلام کا مشاھدہ کرکے مسلمانوں کے حالات تحريرکئے ہيں ان تحريروں ميں اسلامي مظاہر کو بيان کرنے کےلئے روماني زبان استعمال کي گئي ہے اور بڑي حدتک مبالغے سےبھي کام ليا گيا ہے بہرحال ہميں يہ تصور نہيں کرنا چاہيے کہ غلط تعبيروں اور الزامات کا سلسلہ ختم ہوچکا تھا-ساوتي "وقايع نامہ سيد"نامي کتاب کےترجمے کے مقدمے ميں لکھتےہيں کہ "محمد (ص) کي ايک بڑي غلطي يہ تھي کہ انہوں نے مسلمانوں کو تعدد ازواج کا شو ق اورترغيب دلائي تھي ان کا کہنا ہےکہ يہ روش معاشرے پرتسلط جاري رکھنے اور ماضي کے آداب کو باقي رکھنے کي ايک روش ہے -
قابل ذکر ہے جنسي مسائل کے بارےميں مغرب کي ذھنيت کا ايک حصہ وہ تصورات ہيں جو مغرب نے عثماني درباروں کے حرمسراوں کےبارے ميں قائم کررکھے تھے ،عثماني حرمسراوں کےبارے ميں مغرب کا يہ تصور تھا کہ ان ميں بے شمار عورتين لڑکياں اور لڑکے رہا کرتے تھے يہان تک کے يہ تصورات بھي ملتے ہيں کہ عثمانيوں نے زمين پر جنت کي شکل ميں بڑے بڑے محل بنارکھےتھے جن ميں ہرطرح کي آسائش کا سامان تھا -اسي طرح کي تصوير منتسکيو نے ايراني خطوط ميں پيش کي ہے ليکن سياحوں نے اس تصور کو مستردکيا ہے - تئوفي گوتيہ Theophile Goutier نے اٹھارہ سو ترپن ميں لکھا تھا کہ " اگر کسي کو مسلمان مرد اور اس کي بيويوں کے درميان پائے جانے والے احترام متانت اور پاکدامني کي اطلاع ہو تو وہ ان تمام شہوت پرستي کي خيال پردازيوں اورر ان افسانوي باتوں سے دستبردار ہوجائے گا جو اٹھارويں صدي کے ہمارے مصنفين نے گڑھي ہيں -
اس کے باوجود يورپ ميں محمد (ص) اور مسلمانوں کو شہوت پرست قرارديا جاتا رہا بلکہ يہ امر محمد (ص) و مسلمين کے بارے ميں يورپي ذھنيت کا بنيادي رکن تھا اس کا ايک نمونہ برطانوي شاعر لارڈ بائرون کي نظم " بہشت محمدي "ہے ان اشعار ميں وہ کہتے ہيں کہ اس بہشت کا تعلق مردوں سے ہے اور عورتوں کے لئے اسميں کوئي جگہ نہيں ہے يہ وہي خيال ہے جو قرون وسطي ميں بھي پيش کيا گيا تھا اور ہم نے اس کي طرف اشارہ کيا ہے -اس کے علاوہ قرآن ميں پيش کي گئي جنت کي تصوير جس ميں حوروں اور شراب طہور کي بات کي گئي ہے روماني شاعروں کے لئے ايک اچھا موضوع بن گيا تھا اور معمول کے مطابق تحريف و خيال پردازي کا شکار ہوگيا تھا اور يہ خيالات مخاطبين کے ذھن ميں نقش ہوگئے تھے گوئٹيہ اسي طرح کا ايک شاعر ہے حافظ شيراز کا چاھنے والا جس نے بہشت محمدي کے بارے ميں بے شمار نظميں کہي ہيں -
بعض لوگوں کے لئے يہ خيالات خوشي کا باعث بھي تھے ھاينريش ھاينہ جو خود جنسي بے راہ روي ميں گرفتار تھا اسلامي مشرق کو بزعم خويش جنسي آزادي کي بناپر عيسائي مغرب پرترجيح ديتا تھا وہ کہتا تھا کہ مغربي دنيا تاريک اور مقدس مآب ہے بنابريں ان دونون تصورات ميں اعتدال کہيں نہيں پايا جاتا بلکہ يہ افراط کا شکار ہيں اس افراط کا سبب محمد(ص) کي حقيقي جنت سے ناواقف اور جہالت کا شکار ہوناتھا -ھاينہ نے قرآن کےجرمن ترجمے کا مطالعہ کيا ليکن اسے قرآن ميں صرف اپني پسند کي چيزوں يعني حور وقصوراور تعدد زوجات کے بارے ميں بيان کئے گئے امورکے علاوہ اور کچھ نہ مل سکا -ھاينہ نے منصور نام کے عاشق اور اس کي معشوقہ سليمہ کي داستان لکھي ہے يہ داستان اسپين ميں گذرتي ہے جو مسلمانوں اور عيسائيوں کے مابيں تنازعہ کا سبب رہتاہے داستان کے آخر ميں وہ عاشق ومعشوق کا وصال بيان کرتا ہے اورمعشوقہ اس موقع پر سوچتي ہےکہ وہ جنت ميں ہے گويا وہ يہ يقين کرليتي ہےکہ محمد (ص) نے بہشت کے بارے ميں ساري باتيں سچ سچ بيان کي تھيں -ھاينہ نے اٹھارہ سو چوبيس ميں لکھا تھا کہ "ميں يہ اعتراف کرتا ہوں کہ اے مکے کے بزرگ پيغمبر تم سب سے بڑے شاعرہو اور تمہارا قرآن جسے ميں صرف جرمن ترجمے کے ذريعے سمجھ سکتا ہوں اتني آساني سے ميرے ذھن سےمحونہيں ہوسکے گا "-
ويکٹر ہوگو نے اٹھارہ سو انتيس ميں ايک نظم لکھي جسميں انہوں نے افراط سے کام ليتے ہوئے اھل مشرق کو شہوت پرست اور وحشي بتايا ہے يہ مسلمانوں کي غير حقيقي اور بعيد ازواقعيت تصوير ہے اس نظم ميں انہوں نے حرمسراوں دوشيزاوں اورعطر و گلاب کي باتيں کي ہيں يہاں پر حرمسراوں کا تصور عثماني حرمسراوں کے بارےميں يورپ کے تصورکے عين مطابق ہے يعني ايسے حرمسرا کہ جن کي ديواريں چھے ہزار کٹے ہوے سروں سے بنائي گئي ہيں يہاں پر ايک کٹا ہواسرگفتگو کرتاہوا دکھائي ديتا ہے يہ سر ايک شاعر اوريوناني فوجي کي زبان سے جومسلمانوں کے ہاتھوں قيد ہوچکا ہے بيک وقت بات کرتا ہے -اس نظم سےظاہر ہوتا ہے کہ يورپ کے خلاف ترکوں کي جنگوں سے يورپي ذھن کس قدر متاثر تھا اس زمانے ميں يونان کي آزادي ان لوگوں کي سب سے بڑي آرزو تھي جو عثماني حکومت کي تباہي کے خواہاں تھے -
اس زمانے کا يورپ جو کليسا کي رھبانيت کے شکنجے سے خود کو آزاد کرارہاتھا اسلام کاتجزيہ کرتے ہوے سرگردان نظر آتا ہے اس سرگرداني کي وجہ يہ ہےکہ وہ سمجھ رہا ہے کہ اسلام نے انسان کے دنيوي امور کوپورا کرنے کامکمل انتظام کياہے اورا ان ہي امور کو شہوت پرستي کے الزامات کے طور پرپيش کرنا چاھتا تھا -
مثال کے طورپر گيبون نے سلطنت روم کے انحطاط اور سقوط پر اپني کتاب ميں محمد (ص) کي مختصر تاريخ بيان کي ہے وہ محمد(ص) کو دھوکہ بازاور مکار قرارديتے ہيں اور ساتھ ميں يہ بھي لکھتے ہيں کہ يہ امر حيات انساني کي بہبود اور استحکام کےلئے ضروري ہے کيونکہ عيسائيت ميں يہ امر موجود نہيں ہے -يہاں پر ہم ديکھتےہيں کہ قرون وسطي کے تصورات انيسويں صدي ميں بھي پاے جاتے ہيں -
وليم موئير محومت کي زندگي پر اپني چارجلدي کتاب ميں مکہ اورمدينہ کي زندگي کا فرق بيان کرتے ہيں وہ کہتے ہيں کہ مدينے ميں حالات بدل گئے تھے وہاں دنيوي طاقت جاہ طلبي اور خواہشات نفساني تيزي سے رسول کي زندگي کے اعلي اھداف ميں شامل ہوگئيں اور يہ ساري چيزيں دنيوي روشوں سے ہاتھ آتي ہيں اور وحي سياسي اقدامات کي توجيہ کرنے کے لئے نازل ہوتي تھي - وہ اس بات پر اعتراض کرتے ہيں کہ خدا نے محمد (ص) کو کس بنا پر بے شمار عورتوں سے شادي کرنے کي اجازت دي تھي-
اسي طرح کے مطالب خاص طور سے بہشت محمد (ص) کے بارے ميں واشنگٹن ايروينگ کي کتاب ميں ملتے ہيں -يہ کتاب "زندگاني محمد کے عنوان سے لندن ميں اٹھارہ سو اکاون ميں شايع ہوئي -
ايلويس اسپرنگر Alois Sprenger نے مذکورہ بالا افراد کے برخلاف "محمد کي زندگي اورتعليمات "نامي اپني کتاب ميں يورپ کے اس الزام کو مسترد کيا ہے کہ محمد (ص) بندہ تن تھے انہوں نے لکھا ہےکہ مجھے اپني تحقيقات سے يہ نتيجہ حاصل ہوتا ہےکہ اسلام نہ انتقام کي غرض سے نہ نفساني خواہشات کي وجہ سے نہ کسي ايک فرد کي خواہش کي بناپربلکہ وقت کي ضرورت کي بناپر وجود ميں آيا-ميں نے يہ ثابت کرنے کي کوشش کي ہےکہ محمد کوئي ہيرو نہيں جيسا کہ کارلائل سمجھتے ہيں اور نہ کسي اھريمني طاقت کے الہ کار ہيں-
تورآندرہ نے انيس سو اٹھارہ ميں شخصيت محمد (ص) نامي کتاب ميں لکھا کہ محمد (ص) ايک سچے ديني اور سماجي مصلح تھے جنہوں نے جزيرہ عرب کو جاھليت سے نجات دي اور اپني قوم کو نئي طرزپر فکر کرنے کي تعليم دي -
مارگوليوث نے بھي انيس سو پانچ ميں محمد (ص) کي زندگي پرايک کتاب لکھي ان کا مقصد محمد کي ذات کو يورپي مصنفين کے الزامات سے منزہ کرناتھا جوان مصنفين نے گذشتہ صديوں ميں ان پر لگاے تھے وہ حضرت خديجہ کے بعد آپ کي متعدد شاديوں کے بارے ميں لکھتے ہيں کہ يورپي مصنفين نے ان شاديوں کو غير معمولي شہوت کا نتيجہ قرارديا ہے جبکہ ايسا لگتا ہے کہ ان شاديوں کا سبب نيک محرکات ہيں وہ لکھتے ہيں کہ محمد کي کئي شادياں سياسي محرکات کي بناپرتھيں پيغمبر اپنے پيرووں اور مشيروں کو خود سے زيادہ سے زيادہ نزديک کرنے کا اشتياق رکھتے تھے بے شک عمر و ابوبکر کي بيٹيوں سے شادي کرنے کا ان کامقصد يہي تھا-اس قدر مثبت ذھنيت کے باوجود مارگوليوث بھي قرون وسطي کي ذھنيت سے بچ نہ سکے اور محمد پر فريبکاري سميت ديگرالزامات لگاے -اس طرح کے الزامات کم نہيں ہيں جن سے پتہ چلتا ہےکہ انيسويں صدي کا يورپ جسے عقليت پسندي کا بڑادعوي ہے ہرگزقرون وسطي کي ذھنيت سے خود کو نجات نہيں دے سکا ہے -اسي صدي ميں ہميں "کرنھيل سے قاہرہ کبير تک "نامي کتابيں بھي ديکھنے کوملتي ہيں جن ميں اسلام و محمد(ص) کي تصوير کو بري طرح مسخ کرکے پيش کيا گيا ہے اس کتاب ميں اسلام کو بے رحم اور عقل مخالف دين قرارديا گيا ہے جس کي بنياد ايک ھوس پرست نے رکھي تھي -
مصنفہ: مينوصميمي
پیشکش: خواھر سکینہ از تہران