عبداللہ امانت محمدی
محفلین
آج میں ایک ایسے عظیم انسان کی بات کرنے جا رہا ہوں جس نے انتھک محنت سے نہ صرف ذیابیطس کو ہرایا بلکہ مسلسل جدوجہد سے برٹش بوکسنگ بورڈ کو بھی مجبور کردیا کہ وہ انہیں پروفیشنلی فائٹ کرنے کے لیے لائسنس دیں۔
محمد علی پاکستانی نژاد برطانوی بوکسر ہے اور ان کے والدین کا تعلق ضِلع ليّہکی تحصیل كروڑ لعل عيسن سے ہے۔
علی نے 2015 میں بوکسنگ لائسنس کے لیے اپلائی کیا تھا لیکن برٹش بوکسنگ بورڈ نے ذیابیطس کی وجہ سے انہیں لائسنس دینے سے انکار کر دیا کیونکہ اس وقت بورڈ کے قوانین کے مطابق کوئی بھی ڈائیبیٹک بوکسر ، پروفیشنل لائسنس حاصل نہیں کر سکتا تھا۔
علی نے تجربہ کار ٹیم کی مدد سے بوکسنگ بورڈ کو چیلنج کیا اور اچھے دوستوں کے ساتھ مل کر فیصلے کے خلاف پرامن احتجاج کیے اور بالآخر بورڈ کو انہیں لائسنس دینا پڑا۔
علی نے دوسرے ڈائیبیٹک بوکسرز کے لیے بھی دروازے کھول دیئے ہیں
محمد علی پانچ سال کی عمر میں ٹائپ ون ڈائیبیٹیز کا شکار ہوے اور انہیں محسوس ہوا کہ وہ کمزور ہو رہے ہیں۔ جب ان کے والدین انہیں ہسپتال لے کر گئے تو ڈاکٹرز نے انہیں بتایا کہ انہیں ذیابیطس ہے۔
انہوں نے پانچ سال کی عمر سے ہی کھیلوں میں حصہ لینا شروع کر دیا لیکن بارہ سال کی عمر میں انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک بوکسر بنیں گے۔
علی نے 2015 میں پروفیشنل بوکسر بننے کے لیے درخواست دی لیکن برٹش بوکسنگ بورڈ نے ان کی درخواست یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ وہ ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو ڈائیبیٹیز کو لائسنس نہیں دیتے۔ بورڈ کی طرف سے یہ غیر منصفانہ فیصلہ سن کر علی کا دل ٹوٹ گیا اوروہ شدید غمگین ہوئے کیونکہ وہ جسمانی طور پر فٹ اور ایک اچھے بوکسر تھے۔ اس مشکل وقت میں اسد شمیم (جو کہ اب علی کے منیجرہیں)نے علی کو ہار نہ ماننے اور بورڈ کو چیلنج کرنے کا کہا۔
علی نے ڈاکٹر ایان گیلین، اسد شمیم اور اپنے ٹرینر ایلیکس میٹویینکو کی مدد سے بورڈ کو چیلنج کیا اور تقریبا تین سال کی مسلسل محنت و کوشش کے بعد پرفیشنل لائسنس حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ وہ برطانیہ کی تاریخ میں پہلے ڈائیبیٹک بوکسر ہیں جنہیں پرفیشنل لائسنس ملا ۔
اس طرح انہوں نے بوکسنگ بورڈ کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اگر کوئی ڈائیبیٹک بوکسر، جسمانی طور پر فٹ ہے تو انہیں اسے لائسنس دینے میں کوئی ہجکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے۔
محمدعلی نے پہلی پروفیشنل فائٹ میں تاریخی فتح حاصل کی
علی نے 15 ستمبر2018 کو اپنی پہلی پروفیشنل فائٹ میں شاندار پرفارمس کا مظاہرہ کرتے ہوئے آندریج سیپر کو مانچسٹر وکٹوریہ ویئر ہاوس میں شکست دی۔ وہ تمام راؤنڈ بہترین حکمت عملی سے کھیلے اور 36-40 پوائنٹس پر اپنے حریف کو شکست سے دوچار کیا۔
علی کی دوسری پروفیشنل فائٹ بھی 17 نومبر 2018 کو مانچسٹر وکٹوریہ ویئر ہاوس میں ہی ہو گی۔
علی پاکستان میں کب کھیلے گا؟
صحافی کے سوال پر، علی کے منیجراسد شمیم کا کہنا تھا کہ :"میری اپنی خواہش یہ ہے کہ علی پاکستان جائے، اپنے ملک کی خدمت کرے، ہم بھی پاکستانی ہیں اور ہم اپنے ملک کو واپس دینا چاہتے ہیں لیکن ابھی جو ہمارا مین مقصد ہےکہ علی یہاں برطانیہ میں کھیلے اور ورلڈ چیمپئن بنے۔"
مسلمان اور پاکستانی کمیونٹی سے سپورٹ کی اپیل
ایک انٹرویو میں اسد شمیم نے کہا:" ہمیں ہماری اپنی کمیونٹی سے کوئی خاطر خواہ سپورٹ نہیں ملی اور اگر ہمیں اپنے لوگوں سے مناسب سپورٹ مل جائے تو علی کی حوصلہ افزائی ہو گی اور کامیابی میں اہم کردار ادا کرے گی۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں ایک دوسرے کی غلطیاں ڈھونڈنے کی بجائے اپنے لوگوں کو پروموٹ کرنے کی ضرورت ہے اور یہی ایک ایسا طریقہ ہے کہ ہم ایک قوم کے طور پر آگے بڑھ سکتے ہیں۔"
نتیجہِ کلام
محمد علی ایک ایسا عظیم بوکسر ہے جس نے اپنے راستہ میں حائل تمام رکاوٹوں کا مسلسل جدوجہد سے خاتمہ کیا اور ہمیں یہ پیغام دیا کہ کبھی بھی ہمت نہ ہارو۔ ہمارا اخلاقی فرض بنتا ہے کہ ہم انہیں سپورٹ کریں تاکہ وہ مزید ملک و قوم کا نام روشن کرے۔ آپ محمد علی کو سوشل میڈیا پر فالو کرنے یا ان کے متعلق مزید معلومات کے لیے ان کی ویب سائٹ (www.muhammadaliboxing.com) وزٹ کر سکتے ہیں۔