طارق شاہ
محفلین
غزلِ
محمد علی خاں اثر
حُسن اُدھر مست، اِدھرعشق کو کچُھ ہوش نہیں
اب کوئی شے نہیں، جو میکدہ بردوش نہیں
چشمِ مِیگوں نے کِیا ایک ہی جلوے میں خراب
کِس کو اب دیکھوں، کہ اپنا ہی مجھے ہوش نہیں
ہٹ گئی خود، کہ ہٹا لی گئی چہرے سے نقاب
بات کچھ ہو، مگر اب تک وہ فراموش نہیں
ہجر ہے نام تصور کے فنا ہونے کا
وصل وہ ہے کہ جہاں ہوش کو بھی ہوش نہیں
دیکھ کر جلوۂ حق، بُت کو کِیا ہے سجدہ
سمت بُھولا ہُوں، مگر قبلہ فراموش نہیں
کیا چھپائے گی، اثر! حُسن کے جلوے کو نقاب
برق بادل میں نہاں رہ کے بھی روپوش نہیں
محمد علی خاں اثر (رامپوری)
آخری تدوین: