محمد نقوش

یوسف-2

محفلین
m.+naqoosh-1.jpg


m.+naqoosh-2.jpg


m.+naqoosh-3.jpg


m.+naqoosh-4.jpg
 

مقدس

لائبریرین
محمد نقوش
اگر بالفرض محال آج میں مر جاؤں تو کیا ہو گا۔ بعض لوگ خوش ہوں گے تو بعض کہیں گے کہ چلو اچھا ہی ہوا۔ شاید چند ایسے بھی ہوں گے جو یہ کہیں گے کہ ہاں مرحوم ایک اچھا آدمی تھا۔ اس نے چند اچھے اچھے نمبر نکالے اور بس۔ کیا میں صرف ان چند جملوں کے لیے دن رات کام کرتا ہوں اور دن رات مرتا ہوں۔ دن رات کام کرتا ہوں اور دن رات مرتا ہوں۔ کیا صرف ان چند جملوں کے لیے؟​
جی ہاں یہ ان الفاظ کا مفہوم ہے جو مدیر نقوش محمد طفیل مرحوم نے اپنی کتاب "جناب" میں اپنے ہی اوپر لکھے گئے ایک خاکے میں اپنے بارے میں کہے اور آج یہ بات صد فیصد درست ثابت ہوئی کہ مرحوم کی وفات پر پاکستان ٹیلی ویژن نے بیس منٹ کے مختصر سے وقت میں چند اصحاب کے تاثرات پیش کیے جو ان ہی چند جلموں پر مشتمل تھے جن کا تذکرہ مرحوم نے اپنے ذاتی خاکے میں کیا تھا۔​
محمد طفیل کا شمار ان اصحاب میں ہوتا ہے جن کے بارے میں سیلف میڈ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ آپ نہ تو معروف سکہ بند ادیبوں میں سے تھے نہ مدیروں میں۔ مگر آپ نے اپنے آپ کو بحثییت ادیب و مدیر اس طرح منوایا کہ بڑے بڑے سکہ بند ادباء بھی آپ کے سامنے بونے نظر آنے لگے۔ آپ نے علم و ادب کی دنیا میں بحثییت ایک کاتب کے قدم اٹھایا۔ آپ کو کتابت کرنے کا شروع ہی سے شوق تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ مشہور ادباء سے فرمائش کر کے ان کی کتابیں کتابت کیا کرتے، بعد ازاں آپ نے ادیبوں ک کتابیں شائع کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ادب نوازی کا یہ سلسلہ شروع ہوا تو آپ کو ایک ایسے رسالے کی ضرورت محسوس ہوئی جسے ادبی دنیا میں انسائیکلوپیڈیا کا مرتبہ حاصل ہو۔ چنانچہ آپ نے نقوش جاری کیا۔ ابتدا میں آپ نے اس کی ادارت احمد ندیم قاسمی کے سپرد کی مگر پھر آپ اور نقوش اس طرح یکجان ہو گئے کہ نقوش کے لیے آپ کی ادارت ناگزیر ہو گئی۔ نقوش سے آپ کا والہانہ لگاؤ اتنا بڑھا کہ بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق نے آپ کو محمد طفیل کی بجائے محمد نقوش کہنا شروع کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اردو ادب کی دنیا آپ کو محمد نقوش کے نام سے پہچاننے لگی۔ علمی و ادبی دنیا میں آپ کا سب سے بڑا کارنامہ نقوش کے خصوصی نمبرز ہیں۔ بقول پطرس بخاری مرحوم' طفیل صاحب کا ہر شمارہ خاص نمبر ہوےا ہے۔ آپ نقوش کے عام شمارے خاص خاص موقع پر شائع کرتے ہیں۔ انہوں نے نقوش کے جتنے بھی موضوعاتی نمبر نکالے ہیں' وہ تمام کے تمام اپنے موضوع پر حوالے کی حثیت رکھتے ہیں۔ ریٹائرڈ جسٹس عطاء اللہ سجاد کے بقول نقوش کے یہ نمبرز تحقیق کی نئی راہیں استوار کر سکتے ہیں۔ منفرد اسلوب کے مالک صدیق سالک کہتے ہیں کہ "محمد طفیل کے لاکھوں عقیدتمندوں میں سے ایک ہوں۔ میرا ان سے رعارف نقوش کے ذریعے ہوا۔ جب میں نے نقوش کے پیچھے طفیل صاحب کی شخصیت کا مطالعہ کیا تو پتہ چلا کہ اگر نقوش عظیم ہے تو طفیل صاحب عظیم تر"۔​
محمد طفیل مرحوم نے نقوش 1948 میں احمد ندیم قاسمی کی زیر ادارت شروع کیا۔ اس زمانے میں منفرد ادیبہ حاجرہ مسرور بھی نقوش سے منسلک تھیں۔ احمد ندیم قاسمی کہتے ہیں کہ ہم نے اس زمانے میں نقوش کے عالمی امن نمبر اور جشن آذادی نمبر نکالے جو بےحد مقبول ہوئے۔ حامد علی خان اپنے تاثرات میں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے انہیں سب سے پہلے مدیر اعلی کا خطاب دیا۔ کیونکہ انہوں نے نقوش کی ادارت کا حق ادا کر دیا۔ انہوں نے جدید اور قدیم دونوں ادب پر کام کیا ہے جو اردو ادب کی تاریخ میں بلند مقام رکھتا ہے۔ گو اس سے پہلے اس قسم کا کام امتیاز علی تاج نے بھی اسی طرز پر کیا تھا مگر محمد طفیل مرحوم جیسا کام وہ بھی نہیں کر پائے۔​
معروف ڈرامہ نگار انتظار حسین کہتے ہیں کہ مدیر کی حثییت سے طفیل مرحوم کا سب سے برا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک ادبی رسالہ کو ادبی قارئین کے دائرے سے نکال کر ہر خاص و عام کی پسند کی چیز بنا دیا اور یہ یقیناً ادب کی بہت بڑی خدمت ہے۔ محمد طفیل مرحوم نے یوں تو نقوش کے متعدد شاہکار نمبر نکالے مگر ان کا سب سے برا اور آخری کارنامہ تیرہ جلدوں پر مبنی رسول نمبر ہے جو پوری دنیا میں کسی بھی زبان میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر لکھے گئے رسالوں سے کہیں زیادہ مستند ہے۔ رسول نمبر کی تدوین کے دوران ایک مرتبہ صدر مملکت نے ان کی خدمات اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عقیدت کے پیش نظر انہیں یہ پیشکش کی کہ آپ سرکاری خرچ پر حج کر آئیں تو آپ نے فرمایا: میں خالی ہاتھ روضہ رسول پر حاضری نہیں دے سکتا جب تک کہ رسول نمبر مکمل نہ کر لوں۔ صدر نے جواباً فرمایا بھئی لطف تو اسی میں ہے کہ آپ خالی ہاتھ در مصطفے (صلی اللہ علیہ وسلم) پر جائیں اور جھولی بھر کر لائیں۔ چنانچہ اس طرح محمد طفیل صاحب حج پر گئے۔ کسی نے ان کی موت پر کیا خوب تبصرہ کیا ہے کہ انہوں نے نقوش کے بہت سے نمبر نکالے۔ ان نمبروں میں سے سب سے شاہکار نمبر رسول نمبر تھا۔ اس رسول رسول نمبر سے بڑھ کر آپ کوئی اور نمبر نہٰن نکال سکتے تھے لہذا آہ کو مر ہی جانا چاہیے تھا۔ ہم اپنے کالم کا اختتام پروفیسر مرزا محمد منور کے اس قول پر کرتے ہیں کہ "محمد طفیل صاحب نے تن تنہا جتنی اردو کی خدمت کی ہے شاید ہی کسی فرد واحد کے زیر انتظام کسی ادارے نے کی ہو" ع​
حق مغفرت کرے عجب آذاد مرد تھا​
 
Top