حسان خان
لائبریرین
عثمانی دور کی اہم ترین یادگاروں میں سے ایک یہ پُل سولہویں صدی عیسوی میں اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے عثمانی وزیرِ اعظم محمد پاشا سوکولووِچ کے حکم سے تعمیر کیا گیا تھا۔ ۲۰۰۷ء میں یونیسکو کی جانب سے اس پل کا نام میراثِ جہانی کی فہرست میں بھی شامل ہو چکا ہے۔
جس قصبے میں یہ پل واقع ہے وہ جنگ سے قبل تک مسلم اکثریتی قصبہ تھا۔ لیکن دورانِ جنگ سرب فوج نے نسل کشی کے ذریعے قصبے کو سو فیصد سرب قصبے میں تبدیل کر دیا، جس کے نتیجے میں جنگ بندی کے معاہدے کے بعد یہ قصبہ بوسنیا وفاق کی خودمختار سرب ریاست کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ اکثر لوگوں کو اسی پل پر مار کر اُن کی لاشوں کو دریا میں بہایا گیا تھا۔ مزید معلومات کے لیے دیکھیے:
http://en.wikipedia.org/wiki/Višegrad_massacre
ستم ظریفی کی بات ہے کہ جو جگہ مشرق و مغرب اورعالمِ اسلام و عالمِ مسیحیت کے درمیان پل کی علامت کے طور پر مشہور تھی، اُسی جگہ کو بدترین بربریت اور تمدنی و مذہبی ارتباط شکنی کا شاہد ہونا پڑا ہے!
جس قصبے میں یہ پل واقع ہے وہ جنگ سے قبل تک مسلم اکثریتی قصبہ تھا۔ لیکن دورانِ جنگ سرب فوج نے نسل کشی کے ذریعے قصبے کو سو فیصد سرب قصبے میں تبدیل کر دیا، جس کے نتیجے میں جنگ بندی کے معاہدے کے بعد یہ قصبہ بوسنیا وفاق کی خودمختار سرب ریاست کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ اکثر لوگوں کو اسی پل پر مار کر اُن کی لاشوں کو دریا میں بہایا گیا تھا۔ مزید معلومات کے لیے دیکھیے:
http://en.wikipedia.org/wiki/Višegrad_massacre
ستم ظریفی کی بات ہے کہ جو جگہ مشرق و مغرب اورعالمِ اسلام و عالمِ مسیحیت کے درمیان پل کی علامت کے طور پر مشہور تھی، اُسی جگہ کو بدترین بربریت اور تمدنی و مذہبی ارتباط شکنی کا شاہد ہونا پڑا ہے!